شهداء معركه كے احكام

بسم الله الرحمن الرحيم
شهداء معركه كے احكام

جمهور كے نزديك ميدان جهاد ميں مقتول كو نه غسل دلايا جائے گا, اور نه اس كي نماز جنازه پڑھي جائے گي۔
جمهور علماء كي پهلي دليل:
·       حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما روايت كرتے هيں كه : " رسول الله ﷺ نے شهداء احد كو نه تو غسل دلايا, اور نه ان پر جنازه كي نماز پڑھي"  (بخاري ومسلم)
جمهور علماء كي دوسري دليل:
·       حضرت انس رضي الله عنه سے مروي هے كه: " رسول الله ﷺ نے شهداء احد پر نماز جنازه نهيں پڑھي"  (سنن ابو داؤد)
واضح رهے كه حضرت جابر رضي الله عنه كے والد اور حضرت انس رضي الله عنه كے كئي قريبي رشته دار جنگ احد ميں شهيد هوئے تھے۔ لهذا  اگر ان پر نماز جنازه پڑھي جاتي, تو ان دونوں كو ضرور علم هوتا۔ اسي لئے علماء كا اس بات پر اتفاق هے۔ كه شهداء احد كو غسل دلائے بغير, نيز بلا نماز جنازه دفن كيا گيا۔ اسي طرح جنگ بدر جنگ خيبر وغيره ديگر جنگوں ميں شهيد هوئے صحابه كو غسل دلانے يا ان پر نماز جنازه پڑھنے كو كوئي روايت ثابت نهيں هے۔ اس  سے ثابت هوتا هے, كه شهداء معركه پر نماز جنازه مشروع نهيں هے۔ اور يهي جمهور كا مذهب هے۔
احناف كے نزديك شهداء معركه پر نماز جنازه مشروع هے۔
احناف كي پهلي دليل:
·       حديث: "ايك روز رسول الله ﷺ احد والوں كے لئےنكلے, پھر آپ نے ان پر نماز (صلاة) پڑھي۔ جس طرح ميت پر نماز (صلاة) پڑھي جاتي هے۔ جيسے آپ زندوں اور مردوں كو الوداع كهه رهے هوں۔ اور يه آٹھ سال كےبعد پيش آيا" (بخاري ومسلم)
آٹھ سال تجوزا كها گيا هے۔ كيوں كه معركۀ احد كے سات سال اور چند ماه بعد آپ ﷺ نے رفيق اعلى كو لبيك كها۔ اس سے صاف هے كه آپ ﷺ كا يه عمل بالكل وفات سے چند روز قبل كاهے۔
اگر اس كو نماز جنازه هي مان ليا جائے, جيسا كه بعض اهل علم كي رائے هے۔ توكچھ علماء نے اسے صرف شهداء احد كے ساتھ آپ ﷺ كي خصوصيت قرار ديا هے۔ جب كه بعض علماء نے اسے  بيان جواز كے لئے مانا هے۔ اسي لئےامام احمد رحمه الله نے ايك روايت ميں ترك كو اولى اور كرنے كو جائز كها هے۔
ليكن اكثر علماء نے جسے اختيار كيا هے۔ اس سے ساري روايات ميں تطبيق هو جاتي هے۔ وه يه هے كه:
اس روايت ميں (صلاة) سے مقصود نماز جنازه نهيں, بلكه دعاء هے۔
سوال پيدا هوتا هے۔ كه  اگر نماز جنازه نهيں, بلكه دعاء مقصود هے۔ تو آپ ﷺ نے صلاة اس طرح پڑھي جس طرح ميت پر پڑھي جاتي هے۔ اس كا كيا مطلب؟
تو جواب يه هے كه در اصل  يه صلاة بھي دعاء هي كے معنى ميں هے۔ كه آپ ﷺ نے ان كے لئےاس طرح دعائيں كيں, جس طرح نماز جنازه ميں ميت كے لئے كي جاتي هيں۔
كيوں كه: اگر هم اس كو نماز جنازه مان ليں, تو اس كا يه مطلب هوگا, كه كسي وجه سے اگر كوئي آٹھ سال بعد كسي كي قبر پر پهنچے, تو اس كے لئے آٹھ سال بعد بھي اس قبر كے پاس اس كي جنازے كي نماز پڑھ سكتا هے۔ جب كه اس كا قائل كوئي نهيں هے۔
احناف كي دوسري دليل:
·       حديث: "رسول اللهﷺ نے حضرت حمزه رضي الله عنه پر ان كي جنازه كي نماز پڑھي۔ اور نو تكبيرات كے ساتھ پڑھي۔ اس كے بعد هر شهيد كے ساتھ حضرت حمزه رضي الله عنه بھي هوتے تھے۔ (رواه الطحاوي وقال حسن)
ليكن يه حديث منكر هے۔ امام شافعي رحمه الله نے اس روايت كي تضعيف كي هے۔ اور امام ابن القيم نے اسے معلول قرار ديا هے۔
عدم تغسيل وجنازه كن شهداء پر نافذ هوگا:
o     كفار كے مقابلے ميں جو كافروں كے هاتھوں مارا جائے۔ جيسا كه شهداء احد كو  آپ ﷺ نے نه تو غسل دلايا, نه هي ان پر جنازه كي نماز ادا كي۔  (بخاري ومسلم)
o     معركه ميں كسي وجه سےخود كے يا اپنے ساتھيوں كے هاتھوں مارا جائے۔  جيسا كه جنگ خيبر ميں سلمه بن اكوع كے بھائي عامر بن اكوع خود كي تلوار سے زخمي هو كر فوت هوئے۔ تو نبي ﷺ نے انھيں شهيد قرار ديا۔ (مسلم)
o     زخمي حالت ميں هو, مگر  رمق باقي رهے۔ حتى كه جنگ ختم هو جائے, پھر اس كي موت واقع هو۔ تو وه بھي شهداء كے حكم ميں هے۔ جيسا كه سعد بن الربيع كے ساتھ احد ميں هوا۔ (مؤطا مالك , اس كي سند منقطع هے۔ البته اهل السير ميں يه واقعه متداول هے)
o     مسلمانوں كي دو جماعتوں ميں جنگ هو, ان ميں سے جماعت حقه كي معاونت ميں لڑتا هوا مارا جائے۔ جيسا كه حضرت عمار رضي الله عنه كے ساتھ پيش آيا۔ (سنن بيهقي بسند صحيح)
o     شهيد معركه كے بارے ميں اگر معلوم هو كه وه جنبي هيں, تو انھيں غسل دلايا جائے گا۔ جيسا كه ملائكه نے حضرت حنظله رضي الله عنه كو غسل دلايا۔ (مستدرك حاكم بسند صحيح)
o     اسي طرح حائضه عورت اگر ميدان جنگ ميں شهيد هو, تو اسے غسل دلايا جائے گا۔ برخلاف نفساء ومستحاضه كے۔  
o     جو معركه ميں زخمي هوا, مگر كچھ وقفه كے بعد موت آئي, تو اس پر بھي يه حكم نهيں هوگا۔ جيسا كه سعد بن معاذ جنگ خندق ميں زخمي هوئے, پھر كچھ دنوں بعد انتقال هوا۔ تو انھيں غسل دلايا گيا۔ اور جنازه بھي پڑھي گئي۔ (بخاري ومسلم)
o     وه شهداء جو اخروي حكم  ميں شهيد هيں, جيسے مبطون, غريق, وغيره, تو وه اس حكم ميں شامل نهيں هيں۔ انھيں غسل بھي دلايا جائے گا۔ اور نماز جنازه بھي پڑھي جائے گي۔
o     اگر كوئي جهاد كے لئے نكلنے كے بعد سے واپسي كے دوران كسي بھي مرحلے ميں ايسي موت مر جائے, جس سے قتال كا تعلق نه هو, تو وه بھي اس حكم ميں شامل نهيں۔
o     اگر كوئي معركه ميں زخمي هوا, اور كچھ دنوں تك زنده رها, پھر اس كي موت آئي, تو وه بھي اس حكم ميں شامل نهيں۔ گرچه  انھيں زخموں كے سبب اس كي موت هوئي هو۔
o     جوغير حالت قتال ميں ظالمانه طور پر شهيد كيا جائے, وه حكما شهيد تو هے۔ ليكن عدم تغسيل وجنازه كا حكم ان پر نافذ نهيں هوگا۔ جيسے خلفاء ثلاثه وغيرهم۔ انھيں غسل بھي دلايا گيا, اور جنازه بھي پڑھي گئي۔
شهيد كو غسل نه دلانے اور اس پر  جنازه نه پڑھنے كي حكمت:
يوں تو شريعت كے سارے احكام ميں بيش بها حكمتيں هيں۔ جن  ميں سے چند كے سوا  هم نهيں جانتے۔ ان حكمتوں كو الله هي بهتر جانتا هے۔ مگر بعض علماء نےشهداء كو بغير غسل دلائے اور بنا نماز جنازه پڑھے دفن كرنے كي حكمت يه بتائي هے۔ كه  الله كے قول كے مطابق شهداء زنده هوتے هيں۔ اور انھيں اپنے رب كي طرف سے رزق مل رها هوتا هے۔ تو اس حكم ميں اسي عقيده ويقين كو پخته كرايا گيا هے۔
غسل سے اس لئے روكا گيا, كه محشر ميں وه اسي حالت ميں الله كے سامنے پيش هوگا۔ كه زخم سے خون بهه رها هوگا۔ مگر اس كي خوشبو مسك كي هوگي۔ (مسند احمد ونسائي باسناد صحيح)
اور نماز جنازه  اس لئے مشروع نهيں هوا, كه لوگ يه سمجھيں كه شهداء زنده هيں۔ تو جس طرح زنده افراد پر جنازے كي نماز نهيں پڑھي جاتي۔ اسي طرح شهداء پر بھي نهيں پڑھي جائے گي۔ والله اعلم بالصواب۔
از رشحات قلم
عبد الله الكافي المحمدي
داعيه ومترجم شعبۀ جاليات دعوه سينٹر محافظه تيماء
وزارت برائے اسلامي امور واوقاف سعودي عرب
بتاريخ:  16  جمادى الأولى   1435 ھ
موافق:  17  مارچ  2014ء   بروزسوموار