صلاة الليل
تہجد، قیام یا تراویح مع وتر
رات کی نماز کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے عملی طور پر کل چھ طریقے ثابت ہیں :
(۱)کل تیرہ (۱۳) رکعت : ہلکی دو رکعتوں سے شروع کرے، جو صحیح قول کے مطابق عشاء کی بعد والی سنت ہے۔ یا یہ دونوں رکعت خاص ہیں رات کی نماز شروع کرنے کے ساتھ۔ پھر طویل دو رکعت پڑھے، پھر دو رکعت اس سے کم لمبی، پھر دو رکعت اس سے کم، پھر دو رکعت اس سے کم، پھر دو رکعت اس سے کم، پھر ایک رکعت کے ساتھ وتر کرے۔ [2, 2, 2, 2, 2, 2, وتر 1]
(۲) کل تیرہ (۱۳) رکعت : ایک سلام اور دو تشہد سے نو (۹) رکعت پڑھے۔پہلی سے ساتویں رکعت تک کسی بھی رکعت میں تشہد میں نہ بیٹھے۔ آٹھویں رکعت میں تشہد اول جس میں التحیات پڑھ کر بغیر سلام پھیرے کھڑا ہو جائے ۔ اور نویں رکعت میں تشہد ثانی پڑھ کر سلام پھیرے۔ پھر ایک تشہد اور ایک سلام سے پانچ رکعت کے ساتھ وتر کرے۔ سوائے پانچویں رکعت کے کسی بھی رکعت میں نہ بیٹھے۔ [9, وتر 5]
(۳) کل گیارہ (۱۱) رکعت : دو دو رکعت کر کے پڑھتا رہے، اور آخر میں ایک رکعت کے ساتھ وتر کرے۔ [2, 2, 2, 2, 2, وتر 1]
(۴) کل گیارہ (۱۱) رکعت : ایک سلام کے ساتھ چار رکعت پڑھے، پھر ایک سلام کے ساتھ چار رکعت۔ اور تین رکعت کے ساتھ وتر کرے۔ [4, 4, وتر 3]
ہر دو رکعت میں تشہد میں بیٹھیں گے یا نہیں، اس بارے میں کوئی صریح نص وارد نہیں ہے۔ اور چوں کہ ہیئت نماز میں ہر دو رکعت پر تشہد میں بیٹھنا اصلا جواز ہے۔ اس لئے ہر دوسری رکعت میں تشہد میں بیٹھنا غلط نہیں ہوگا۔ اور اگر کوئی نہ بیٹھے، بلکہ ایک ہی تشہد اور ایک سلام سے چار رکعت پڑھے، تو بھی کوئی حرج نہیں ، کیوں کہ اس جگہ اس تشہد کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔البتہ وتر کوایک سلام کے ساتھ تین رکعت پڑھنے کی صورت میں دوسری رکعت میں تشہد میں بیٹھنا مشروع نہیں ہے۔ کیوں کہ اس طریقہ سے وتر کی نماز مغرب کی نماز کے مشابہ ہو جائے گی۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر کی نماز کو مغرب کی نماز کے مشابہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
(۵) کل گیارہ (۱۱) رکعت : دو تشہد اور ایک سلام سے نو (۹) رکعت پڑھے۔ آٹھویں رکعت میں تشہد اول کے بعد بغیر سلام پھیرے کھڑا ہو جائے۔ اور نویں رکعت میں تشہد ثانی کے بعد سلام پھیرے۔ اور اس کے بعد دو رکعت پڑھے۔ کچھ لوگوں نے بعد کی دو رکعت کو فجر کی سنت قرار دیا ہے، مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔[9 مع وتر, نفل 2]
(۶) کل نو (۹) رکعات : چھٹی رکعت میں تشہد اول پڑھ کر بغیر سلام پھیرے کھڑا ہو جائے، اور ساتویں رکعت میں تشہد ثانی پڑھ کر سلام پھیر دے۔ پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے۔[7 مع وتر, نفل 2]
آپ ﷺ کا فرمان (الوتر حق ) والی روایت سے مزید تین کیفیتیں قولی طور پر ثابت ہوتی ہیں :
(۷) کل پانچ رکعت : مذکورہ طریقوں میں سے کسی بھی طریقہ کے مطابق پانچ رکعت پڑھے۔ خواہ ایک ہی سلام سے پانچوں رکعت ، یاچار اور ایک، یا دو دو اور ایک ، یا دو اور تین، یاپھر تین اور دو
(۸) کل تین رکعت : خواہ ایک تشہد اور ایک سلام سے تینوں رکعت پڑھے۔ یا دو اور ایک ، یا پھر ایک اور دو
(۹) محض ایک رکعت : ایک رکعت پڑھنے کی صورت میں کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔
نیز (من قام مع الإمام حتی يرجع) اور (صلاة الليل مثنی مثنی) کی روایتوں سے ایک اور کیفیت کی دلیل ملتی ہے :
نیز (من قام مع الإمام حتی يرجع) اور (صلاة الليل مثنی مثنی) کی روایتوں سے ایک اور کیفیت کی دلیل ملتی ہے :
(۱۰) بلا تحدید رکعات : رکعات متعین کئے بغیر دو دو رکعت پڑھتے رہیں۔ خواہ جتنی رکعت بھی ہو جائے۔ اور آخر میں ایک رکعت پڑھ لیں۔
واضح رہے کہ ایک سے لے کر تیرہ رکعت تک کسی بھی عدد کو متعین کرکے پڑھنا ثابت ہے۔ البتہ تیرہ رکعت سے زیادہ پڑھنے کی صورت میں رکعات متعین کرنا صحیح نہیں ہے۔بلکہ بغیر تحدید جتنا میسر ہو پڑھتے رہیں ۔ کیوں کہ تیرہ رکعت سے زیادہ عدد کی تعیین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور بغیر دلیل کے عدد متعین کرنا اصول ستہ کے خلاف ہے۔جو ثابت شدہ عمل کو بدعت بنا دیتے ہیں۔ اور وہ چھ اصول یہ ہیں : (۱) سبب (۲) جنس (۳) کمیت (۴) کیفیت (۵) مکان (۶) زمان میں سے کوئی چیزبغیر دلیل کے اپنی طرف سے متعین نہ کریں۔
مسئلہ : پانچ رکعت ایک سلام سے پڑھنے کی صورت میں دوسری اور چوتھی رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا نہ بیٹھنا افضل ہے۔ اور چوں کہ اصلا ہر ثنائی رکعت میں بیٹھنا جائز ہے، اس لئے بیٹھنے کا قول بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔البتہ تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے کی صورت میں دوسری رکعت میں تشہد میں بیٹھنا مشروع نہیں ہے۔ اگر بیٹھے تو سلام پھیر دے۔
مسئلہ : تین رکعت وتر کو بہت سے علماء نے غیر مشروع قرار دیا ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے (لا توتروا بثلاث وأوتروا بخمس أو سبع ولا تشبهوا بصلاة المغرب) تین رکعت وتر نہ پڑھو، ایسا کرکے وتر کی نماز کو مغرب کی نماز کے مشابہ نہ بناؤ۔ ہاں ! پانچ رکعت یا سات رکعت کے ساتھ وتر کرو [ابن حبان، الدار قطنی، الموطأ بروایۃ محمد، والطحاوی وغیرہم]
لیکن اس حدیث کا مفہوم تین رکعت وتر کی عدم مشروعیت نہیں ہے،گرچہ اس کا منطوق ممانعت پر صریح ہے۔ کیوں کہ اس ممانعت کا سبب آخری جملہ ہے۔ یعنی مغرب کے مشابہ ہونا۔ تو جب یہ سبب زائل ہو جائے تو مسبب یعنی ممانعت بھی زائل ہو جائے گی۔ اور اس کی صریح دلیل آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: (الوتر حق، فمن شاء فليوتر بخمس، ومن شاء فليوتر بثلاث، ومن شاء فليوتر بواحدة) کہ وتر حق ہے۔ تو جو چاہے پانچ رکعت پڑھے، جو چاہے تین رکعت پڑھے اور جو چاہے ایک رکعت پڑھے [ابن ماجہ، وابن حبان، والحاکم والدارقطنی]
تو جو چاہے مغرب کی مشابہت سے بچتے ہوئے تین رکعت پڑھے۔اور تین رکعت وتر کو مغرب سے الگ کرنے کے لئے صرف دو راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ دوسری رکعت میں سلام پھیر دیں، پھر تیسری رکعت الگ سے پڑھیں۔ یہ ہر اعتبار سے افضل ہے۔ دوسرا یہ کہ تینوں رکعت ایک تشہد اور ایک سلام سے مکمل کریں۔ یعنی دوسری رکعت میں تشہد میں نہ بیٹھیں۔اس جگہ دوسری رکعت میں نہ بیٹھنے کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔
مگر دوسری پانچویں اور چھٹی کیفیتوں پر قیاس کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا اس قضیہ کا بہترین حل ہے۔اس طرح ممانعت اور اجازت والی دونوں روایتوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
بعض لوگوں نے دوسری رکعت میں بغیر سلام کے تشہد اول کو برقرار رکھتے ہوئے یہ حل نکالا ہے، کہ رکوع سے پہلے رفع الیدین کے ساتھ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ دوبارہ باندھ لے، پھر قنوت وتر کی دعاء پڑھے۔ مگراس کی بنیاد کمزور ہے۔ کیوں کہ بعض سلف سے قنوت وتر کی دعاء سے قبل اور بعد میں تکبیر کا کا ذکر تو ملتا ہے۔ مگر یہ قول مرجوح ہے۔ نیز رفع الیدین کا جو ذکر ملتا ہے، وہ تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھا کر دوبارہ باندھ لینا نہیں ہے۔ بلکہ قنوت وتر کی دعاء کے لئے ہاتھ اٹھا نا ہے، جو دعاء کے ساتھ بالاستمرار اٹھے رہیں گے ۔
علاوہ ازیں یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ کیوں کہ قنوت وتر کی دعاء کو کبھی کبھی چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔ تو جس دن قنوت وتر کی دعاء نہیں پڑھیں گے، اس دن مغرب کے ساتھ کون سا فرق رہ جائے گا۔ شاید اسی الزامی اشکال سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے قنوت وتر کی دعاء کو ہی واجب کہہ دیا، جب کہ وجوب کے اصولی شرائط ہی متوفر نہیں ہیں۔بلکہ بالاستمرار ہمیشہ اس کی پابندی کرنا خلاف سنت، اور ترک کی سنیت کو نظر انداز کرنا ہوگا۔
مسئلہ : ایک رکعت وترکو کچھ لوگوں نے ناپسند کیا ہے۔ جب کہ مختلف احادیث سے صراحۃ ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ پہلی تیسری اور نویں کیفیت میں بھی ایک رکعت وارد ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ وتر کی ایک رکعت ہی پڑھتے تھے۔ اور جب ایک آدمی نے آپ سے وتر کی بابت سوال کیا، تو آپ نے اسے آخری ایک رکعت کو الگ سے پڑھنے کا حکم دیا۔ تو اس نے کہا مجھے ڈرہے کہ لوگ اسے البتیراء یا دم بریدہ نہ کہیں۔ تو ابن عمر نے کہا : کیا اللہ اور اس کے رسول کی سنتیں بھی بڑھتی ہیں، یہ اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے [أبو خزیمۃ وصححہ الألبانی] لہذا اسے ناپسند کرنا، بتیراء دم بریدہ یا ادھ کٹی کہنا غلط ہے۔
مسئلہ : وتر کی آخری تین رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں (سبح اسم ربک الأعلی) دوسری میں (قل يا أيها الکافرون) اور تیسری میں (قل هو الله أحد) پڑھنا مسنون ہے۔ کبھی کبھی تیسری رکعت میں (قل هو الله أحد) کے ساتھ ساتھ معوذتین بھی پڑھنا ثابت ہے [أبو داوود، والترمذی، والنسائی، وابن ماجہ، والحاکم، وابن حبان والطحاوی]
بلکہ ایک بار تو آپ ﷺ سے وتر کی آخری رکعت میں سورہ نساء کی سو آیتیں پڑھنا بھی وارد ہے [النسائی وأحمد صححہ الألبانی]
مسئلہ : قنوت وترکی دعاء آخری رکعت میں رکوع سے قبل ہاتھ اٹھا کر پڑھنا مشروع ہے۔ اور پورے سال میں کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن بالالتزام وبالاستمرار ہمیشہ پڑھنا خلاف سنت ہے۔ اسی طرح رکوع کے بعد پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
قنوت وتر یہ دعاء پڑھی جائے گی: (اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارک لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت، فإنک تقضي ولا يقضی عليک، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تبارکت ربنا وتعاليت، لا منجأ منک إلا إليک) یہ دعاء رسول اللہ ﷺ نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو سکھایا تھا [أبو داوود والنسائی وغیرھما وصححہ الألبانی] رسول اللہ ﷺ سے عملی طور پر قنوت وتر کی دعاء یا اس کی کیفیت کے سلسلے میں کوئی تفصیل صریح اور صحیح طور سے وارد نہیں ہے۔
مسئلہ : اس دعاء میں اضافہ کرنا بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور آپ کے دور میں مساجد کے ائمہ سے ثابت ہے۔ وہ کافروں پر لعنت بھیجتے، مومنین کے لئے دعاء کرتے، عام مسلمانوں کے لئے استغفار کرتے اور نبی ﷺ پر درود وسلام بھیجتے تھے۔ پھر اس اضافہ کا اختتام اس دعاء مأثور پر کرتے تھے (أللهم إياک نعبد ، ولک نصلي ونسجد، ، وإليک نسعی ونحفد، ونرجو رحمتک ربنا، ونخاف عذابک الجد، إن عذابک لمن عاديت ملحق) پھر تکبیر کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے [ابن خزیمۃ] پھر سلام پھیرنے سے پہلے یا سلام پھیرنے کے بعد یہ کہے (أللهم إني أعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصی ثناء عليک أنت کما أثنيت علی نفسک) [أبوداوود وصححہ الألبانی] اور جب سلام پھیر لے تو تین بار (سبحان الملک القدوس) کہے۔ تیسری بار آواز کو بلند کرے [أبو داوود وصححہ الألبانی]
مسئلہ : قنوت وتر کی دعاء گاہے بگاہے پورے سال میں کبھی بھی پڑھنا مشروع ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود، سفیان ثوری، ابن مبارک ودیگر اہل علم نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اوریہی بات زیادہ صحیح ہے۔گرچہ اکثریت قنوت وتر کی دعاء کو صرف رمضان کی آخری پندرہ راتوں کے لئے خاص مانتے ہیں۔اس کے قائل خلفاء راشدین ، انس بن مالک، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم صحابہ میں سے، اور حسن بصری، امام شافعی، امام احمد ودیگر اہل علم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قنوت وتر کی دعاء محض رمضان کی آخری پندرہ راتوں میں مشروع ہے۔باقی پورے سال میں نہیں۔ رکوع سے پہلے کا ثبوت متعدد صحابہ کے عمل ، اور بعض طرق میں مرفوعا رسول اللہ ﷺ سے ملتا ہے۔
اور ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنے کے قائل حضرت عبد اللہ بن مسعود، ابوھریرہ ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،نیز ابو قلابہ، مکحول، ابراہیم، سفیان اور امام احمد رحمہم اللہ وغیرہم ہیں۔ان سارے اختلافات کے باوجود یہ بات صریح ہے، کہ جس طرح کبھی کبھی قنوت وتر کی یہ دعاء پڑھنا سنت ہے۔ اسی طرح جان بوجھ کر کبھی کبھی اس کو چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔
تنبیہ : پورے سال میں ہویا رمضان کی آخری پندرہ راتوں میں،رکوع سے پہلے ہو یا رکوع کے بعد، ہاتھ اٹھا کر ہو یا بغیر ہاتھ اٹھائے،ہر حال میں یہ عمل ادا ہو جائے گا۔ مگر رمضان یا غیر رمضان میں کبھی کبھی ہاتھ اٹھا کر رکوع سے قبل پڑھنا افضل ہے۔البتہ ہاتھ نہ اٹھانے کی صورت میں ہاتھ کو سیدھا لٹکا دینا کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ نہ ہی یہ نماز کی ہیئت ہے۔ بلکہ اس دوران دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے پر رکھنا ہی نماز کی ہیئت بھی ہے، اور نماز کے لئے قیام کی حالت میں ہاتھوں کی صحیح جگہ بھی۔
وتر کے بعد نفل
پانچویں اور چھٹی کیفیتوں میں وتر کے بعد دو رکعت کا ذکر آیا ہے۔ اور یہ دونوں رکعتیں صحیح سند کے ساتھ نہ صرف ثابت ہیں، بلکہ آپ ﷺ نے اس کا حکم بھی دیا ہے (فإذا أوتر أحدکم فليرکع رکعتين فإن استيقظ وإلا کانتا له) جب تم میں سے کوئی وتر پڑھ چکے، تو اسے دو رکعتیں پڑھ لینی چاہئے۔ اگر وہ قیام کے لئے جاگ سکا تو ٹھیک ہے۔ ورنہ یہ دو رکعتیں اس کے لئے قیام کے قائم مقام ہو جائیں گے [ابن خزیمۃ والدارمی وغیرہما وصححہ الألبانی]
چنانچہ صحیح قول کے مطابق وتر کے بعد بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔آپ ﷺ کا فرمان (اجعلوا آخر صلاتکم بالليل وترا) کہ اپنی رات کی نمازوں کا اختتام وتر پر کرو [متفق علیہ] تخییر کے لئے ہے، نہ کہ وجوب کے لئے۔اس طرح دونوں حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ان دونوں رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں (إذا زلزلت الأرض) اور دوسری رکعت میں (قل يا أيها الکافرون ) پرھنا مسنون ہے [ابن خزیمۃ وغیرہ وصححہ الألبانی]
دعاء قنوت وتر
وتر کی نماز میں دعاء قنوت وتر پڑھنا سنت ہے۔ اور صحیح روایات کے مطابق آخری رکعت میں رکوع سے پہلے پڑھنا افضل ہے۔اگر کوئی رکوع کے بعد پڑھتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اورجس طرح دعاء قنوت وتر کا پڑھنا سنت ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی جان بوجھ کر چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔ اس دعاء کے لئے اللہ اکبر کہنے یا رفع الیدین کر کے دوبارہ باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ سورہ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورۃ پڑھیں۔ پھر دعاء قنوت شروع کردیں۔ اس دعاء میں اللہ کے رسول ﷺ سے ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے۔
البتہ آپ ﷺ سے قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا ثابت ہے۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے علماء قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانے کے قائل ہیں۔ نیز حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا بھی ثابت ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی بغیر ہاتھ اٹھائے دعاء کرتا چاہے، تو وہ بھی غلط نہیں۔ کیوں کہ اصلا رسول اللہ ﷺ سے اس دعاء میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے۔ البتہ ہاتھ نہ اٹھانے کی صورت میں ہاتھوں کو چھوڑ دینا اور انھیں سیدھا لٹکا دینا کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ نہ تو اس ارسال کی کوئی دلیل ہے، نہ ہی یہ نماز کی ہیئت ہے۔ بلکہ عام قاعدہ ہے کہ جب بھی نماز میں قیام کی حالت میں ہوں، تو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر ہونا چاہئے (مسند الامام أحمد )
عام حالت میں اصلی ہیئت ارسال اور ہاتھ لٹکانا ہے۔ مگر حالت نماز میں جب قیام ہو تو اصلی ہیئت ہاتھوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا نہیں، بلکہ دائیں کو بائیں پر سینہ پر رکھنا ہے۔
قنوت وتر کی مسنون دعاء جو رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو سیکھایا وہ یہ ہے (اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وقني شر ما قضيت فإنک تقضي ولا يقضی عليک وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت لا منجأ منک إلا إليک) [ ابن خزیمہ وأبوداوود والنسائی وابن ماجہ والدارمی وأحمد والحاکم وابن حبان وغیرہم]
اگر کوئی اسی پر اکتفاء کرتا ہے، تو یہ بہتر ہے۔ ااگر کسی نے مزید دوسری دعاؤں کا اضافہ کیا، تو کوئی حرج نہیں ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ائمہ مساجد سے کافروں پر لعنت مسلمانوں کے لئے مغفرت جیسی دعاؤں کا اضافہ کرنا ثابت ہے [قیام رمضان للألبانی]
درود شریف کی اہمیت کے پیش نظر آخر میں اسے بھی پڑھنا جائز ہے۔ بلکہ دعاء کی قبولیت کا امکان بڑھ جائے گا۔
واضح رہے کہ مأثور دعاؤں میں امام کے مفرد صیغے استعمال کرنے کی صورت میں مقتدیوں کی خیانت والی روایت [أبو داوود، الترمذی، ابن ماجہ، مسند أحمد، المعجم الکبیر والبیہقی] کے جملہ طرق یا تو منکر ہیں یا ضعیف۔ نیز رسول اللہ ﷺ کے عمل کے خلاف بھی۔ کیوں کہ آپ ﷺ نے پوری زندگی نماز پڑھائی، آپ امامت کے دوران سجدہ یا دوسجدوں کے درمیان یا دیگر دعاؤں میں ہمیشہ مفرد کا صیغہ ہی استعمال کرتے رہے۔اگر مقتدیوں کے آمین کہنے اور نہ کہنے میں فرق کرنا چاہیں، تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ نیز جب مقتدی آمین کہیں گے، تو خواہ صیغہ افراد ہو یا جمع ، وہ سب اس دعاء میں شریک ہو جائیں گے۔
اعداد وتقدیم أبومحمدعبد اللہ الکافی المحمدی مکتب دعوہ وتوعیۃ الجالیات بمحافظۃ تیماء سعودی عرب
اعداد وتقدیم أبومحمدعبد اللہ الکافی المحمدی مکتب دعوہ وتوعیۃ الجالیات بمحافظۃ تیماء سعودی عرب