بسم الله الرحمن الرحيم
نماز ميں مسبوق كے احكام
توضيح مفردات ومصطلحات
مسبوق كے لغوي وشرعي معنى:
مسبوق كے لغوي معنى: لفظ "مسبوق" اسم مفعول هے "سبق" كا, جب كوئي اس سے آگے نكل جائے۔
مسبوق كے شرعي معنى: جس سےبعض ركعات يا پوري ركعتوں ميں امام آگے نكل گيا هو, اسے مسبوق كهتے هيں۔ يعني مسبوق وه شخص كهلاتا هے, جو ايك ركعت يا زياده گزر جانے كے بعد امام كے ساتھ ملے۔ (القاموس المحيط).
مُدرك كے لغوي وشرعي معنى:
مدرك كے لغوي معنى: لفظ "مدرك" اسم فاعل هے "أدرك" كا, جب كوئي اپنے آگے والے سے جا ملے۔ (القاموس المحيط). جيسا كه الله كے كلام ميں هے: {حَتَّى إِذَا ادَّارَكُواْ فِيهَا جَمِيعاً}.
مدرك كے شرعي معنى: جس نے امام كے ساتھ پوري ركعتيں پا لي هوں۔ (التعريفات للجرجاني).
يا جس كي كوئي ركعت فوت نه هوئي هو, ساري ركعتيں امام كي اقتدا ميں مل گئي هوں۔ (الموسوعة الفقهية).
امام كے لغوي وشرعي معنى:
امام كے لغوي معنى: لفظ "إمام" هر وه چيز جسے اپنے عمل كےلئے نمونه اور اپنے فعل كے لئے دليل بنايا جائے۔ جيسے رسول الله ﷺ امت كے امام هيں۔ قرآن لوگوں كے لئے امام هے۔ (ملخص ما في اللسان والقاموس)
امام كے شرعي معنى: نماز ميں امام وه هوتا هے۔ جماعة المسلمين جس كي اقتداء ميں نماز ادا كرتي هے۔
ماموم كے لغوي وشرعي معنى:
ماموم كے لغوي معنى: وه جس نے كسي چيز كو اپنا امام بنايا هو۔ اور اس كو اپنے عمل كے لئے نمونه سمجھتا هو۔
ماموم كے شرعي معنى: لفظ: "ماموم" , "مقتدي" كے معنى ميں هے۔ جو امام كي اقتداء ميں نماز ادا كر رها هو.
مفرد يا منفرد كے لغوي وشرعي معنى:
مفرد كے لغوي معنى: "مفرد","فرد" سے هے۔ جس كے معنى ايك كے هيں۔
مفرد كے شرعي معنى: جو تنها نماز ميں كھڑا هو, وه كسي كي اقتداء كر رها هو, نه اس كي كوئي اقتداء كر رها هو۔
پهلا مسئله:
نماز كے لئے آنے كي كيفيت
نماز كے لئے مصلي كو سكون و وقار اور اطمينان كے ساتھ آنا چاهئے۔ جيسا كه رسول الله ﷺ كا فرمان هے: "عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إذا أقيمت الصلاة فلا تأتوها وأنتم تسعون، وأتوها وأنتم تمشون وعليكم السكينة...) متفق عليه"
ترجمه معاني: حضرت أبو ھريره رضي الله عنه سے مروي هے, كه رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا: جب نماز كھڑي هو جائے, تو تم دوڑتے هوئے نه آيا كرو۔ بلكه چل كر آيا كرو۔ اور تمهيں سكون ووقار كا التزام كرنا چاهئے۔
صحيح مسلم كي ايك روايت ميں يه بھي هے كه: "فإن أحدكم إذا كان يعمد إلى الصلاة فهو في صلاة" كه جب تم ميں سے كوئي نماز كے لئے چل نكلتا هے, تو گويا وه نماز هي ميں هے۔
اس كي بهت ساري حكمتوں ميں سے ايك يه بھي هے, كه نماز ميں مطلوب خشوع وخضوع كو حاصل كرنےكے لئے پهلے سے هي قلب وجوارح كو مستعد كيا جائے۔ تا كه نه سانس پھول رهي هو, نه تيزي سے دل دھڑك رها هو وغيره۔ بلكه مكمل نماز ابتدا سے انتها تك خشوع سے پر هو۔ اور تياري سے لے كر نماز مكمل هونے تك كا سارا وقت الله كے لئے مخصوص هو جائے, اور بهترين عبادت ميں شمار هو۔
دوسرا مسئله:
جماعت كھڑي هو تو فورا جماعت ميں شامل هو جائے
جب كوئي اس حال ميں مسجد پهنچے كه جماعت كھڑي هو چكي هو, تو اسے بلا تاخير جماعت ميں شريك هو جانا چاهئے۔ ايسے ميں اس كے لئے جماعت سے الگ هو كر تحية المسجد يا ديگر كوئي اور نماز ادا كرني جائز نهيں هے۔ جيسا كه رسول الله ﷺ نے فرمايا: "إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة" صحيح مسلم. جب نماز كے لئے اقامت هو جائے, تو سوائے فريضه (جس كي جماعت كھڑي هو چكي هے) كے اور كوئي نماز نهيں هے۔
شيخ ابن باز رحمه الله فرماتے هيں: جب كوئي اس حال ميں مسجد ميں داخل هو, كه امام نے فريضه كي جماعت شروع كر دي هو, يا تراويح كي, يا سورج چاند گهن وغيره كي جماعت كھڑي هو, تو سنت يه هے كه فورا امام كے ساتھ شريك هو جائے۔ حتى كه تحية المسجد وغيره بھي نه پڑھے۔ كيوں كه جماعت كي نماز اس كي طرف سے كافي هو جائے گي۔ اس مسئلے ميں كسي اهل علم كا اختلاف ميرے علم ميں نهيں هے۔ ( مجموع فتاوى و مقالات متنوعة الجزء الحادي عشر)
البته اگر امام فريضه كے بعدكسوف كي جماعت كرا رها هو, اور مسبوق اگر صلاة كسوف ميں شامل هوتا هے تو فريضه كا وقت نكل جانے كا خطره هو, جب كه فريضه اور كسوف كي نمازوں كي كيفيت ميں فرق هونے كے سبب فريضه كي نيت سے امام كے ساتھ شامل نه هو سكتا هو, تو فريضه كو الگ سے پڑھنے ميں كوئي حرج نهيں هے۔
اسي طرح وه شخص جو منفرد هو, اور اسے صف ميں جگه نه ملے, تو وه كچھ دير دوسرے مسبوق كا انتظار كرے, اس ميں بھي كوئي حرج نهيں هے۔
تيسرا مسئله:
مسبوق منفرد جسے صف ميں جگه نه ملے
صف كے پيچھے تنها ادا كي گئي نماز كے بارے ميں علماء كا اختلاف هے۔ در اصل اس بارے ميں رسول الله ﷺ كي ممانعت وارد هوئي هے, كه كوئي منفرد صف كے پيچھے اكيلا نماز ادا كرے۔
v پهلا قول: كسي بھي حال ميں صف كے پيچھے منفرد كي نماز نهيں هوگي۔
ان كي وضاحت سے يه بات ظاهر هوتي هے, كه اگر كوئي منفرد صف كے پيچھے كھڑا هو جائے, اور ايك ركعت كے بعد كوئي دوسرا اس كے ساتھ مل جائے, تو اس كو وه ركعت شمار نهيں كرني چاهئے۔ كيوں كه وه در اصل هوئي هي نهيں هے۔
امام احمد رحمه الله كا هے۔ اسي كو شيخ ابن باز رحمه الله اور شيخ فوزان نے اختيار كيا هے۔ اور فتاوى لجنه دائمه ميں بھي اسي قول كو ترجيح دي گئي هے۔ اور دلائل كا ظاهر ان كي تائيد كرتا هے۔
آپ ﷺ نے فرمايا: "لا صلاة لفرد خلف الصف" مسند أحمد وابن ماجه وصححه الالباني. كه صف كے پيچھے تنها شخص كي نماز نهيں هوتي۔
نيز رسول الله ﷺ نے ايك شخص كو صف كے پيچھے اكيلا نماز پڑھتے ديكھا, تو آپ ﷺ نے اسے وه نماز اعاده كرنے كا حكم فرمايا۔ مسند أحمد، والترمذي، وحسنه، وابن ماجه، وفي إسناده اختلاف صححه الألباني في صحيح سنن أبي داود.
البته اگر صف كے پيچھےكوئي اكيلي عورت هے, تو اس كي نماز هو جانے ميں كسي كا اختلاف نهيں هے۔ جيسا كه حضرت انس رضي الله عنه كي روايت ميں هے: "أنّ جدَّتـه مُلَيْكَة دعت النبي صلى الله عليه وسلم لطعام صنعته، فأكل، ثم قال: قوموا لأصلي لكم. فقمت إلى حصير قد اسودّ من طول ما لبس، فنضحته بماء. فقام عليه صلى الله عليه وسلم وقمت أنا واليتيم وراءه، وقامت العجوز من ورائنا، فصلى لنا ركعتين، ثم انصرف" صحيح رواه الجماعة إلا ابن ماجه.
ترجمه: حضرت انس رضي الله عنه كي دادي حضرت مليكه رضي الله عنها نے نبي ﷺ كو ايك كھانے پر دعوت فرمائي, جسے انھوں نے خود بنايا تھا۔ تو آپ ﷺ نے تناول فرمايا۔ پھر كها: كھڑے هو جاؤ, ميں تمهارے لئے نماز پڑھ دوں۔ تو ميں نے ايك چٹائي لائي, جو سياه هو چكي تھي, كيوں كه اس پر زمانه گزر چكا تھا۔ ميں نے اس پر پاني كے چھينٹے مار دئے۔ آپ ﷺ اس پر كھڑے هو گئے۔ اور ميں اور ايك يتيم آپ ﷺ كے پيچھے كھڑے هو گئے۔ اور بڑھيا (حضرت انس رضي الله عنه كي دادي) همارے پيچھے كھڑي هو گئي۔ آپ ﷺ نے همارے لئے دو ركعتيں ادا فرمائيں, اور نماز سے فارغ هوئے۔
v دوسرا قول: صف كے پيچھے منفرد كي نماز اس مجبوري ميں هو جائے گي۔
اس قول كا تقاضه يه هے كه حتى الامكان صف كے پيچھے اكيلےنماز ادا كرنے سے بچنا چاهئے۔ جو بھي مناسب حل يا طريقے هوں, انھيں اختيار كرے۔ جب تك وه طريقے اس كے اكيلے صف كے پيچھے نماز ادا كرنے سے زياده مضر نه هوں۔ ورنه وه "أخف الضررين" يا "تكليف ما لا يطاق" كے تحت مجبوري جان كر صف كے پيچھے اكيلا جماعت ميں شامل هو جائے۔ ايسے ميں وه معذور سمجھا جائے گا۔ اور اس كي نماز ان شاء الله صحيح هو جائے گي۔ البته اس سے بچنے كے مناسب امكانات هوتے هوئےبھي كوئي ايسا كرے, تو اس كي نماز نهيں هوگي۔ جيسا كه مذكوره دليلوں سے واضح هے۔
وهو اختيار الجمهور: ومنهم الأئمة الثلاثة مالك وأبو حنيفة والشافعي، وشيخ الإسلام ابن تيميه والشيخ السعدي والألباني والعثيمين وعبد الله بن عقيل، وهو القـول الـراجح، لجمعِهِ بين الأدلة كلها، وعملاً بقاعدة الواجبات تسقط بالعذر والعجز عنها. ولقوله صلى الله عليه وسلم:
يهي جمهور كي رائے هے۔ امام مالك , امام ابو حنيفه, امام شافعي اور شيخ الاسلام ابن تيميه رحمهم الله نے اسي كو اختيار كيا هے۔ شيخ الباني اور شيخ ابن عثيمين رحمهما الله بھي اسي كے قائل هيں۔
جمهور كا قول هي راجح هے
تمام دليلوں كو ديكھتے هوئے يهي قول راجح معلوم هوتا هے۔ كيوں كه:
· بنا بر عذر و عجز واجب ساقط هو جاتا هے۔ (ذكره الشيخ ابن عثيمين)
· الله كا فرمان هے: "لا يكلف الله نفسا إلا وسعها" البقرة: 286
· نبي ﷺ كا فرمان هے: (إذا امرتكم يأمر فأتوا منه ما استطعتم) رواه البخاري.
· نماز نه هونے كي دليليں بچنے كے امكانات هوتے هوئے بھي ايسا كرنے پر محمول هيں۔
· حضرت انس رضي الله عنه كي روايت گرچه عورت سے متعلق هے۔ مگر عورت كي تخصيص كي كوئي دليل نهيں هے۔ لهذا جس طرح ايك عورت مرد كے ساتھ صف ميں كھڑي نهيں هو سكتي, اس عذر كے سبب اس كي نماز هو جائے گي۔ اسي طرح بحالت عذر مرد كي نماز بھي هو جائے گي۔
مسبوق منفرد خلف الصف كے ممكنه خيارات اور احكام
مسبوق جب منفرد هو, اور اسے صف ميں كوشش كے با وجود جگه نه ملے, تو وه كيا كرے؟!
v اگلي صف سے كسي مصلي كو پيچھے كھينچ لائے؟!
كچھ لوگوں نے اس كو مناسب حل سمجھا هے۔ جب كه اس سے اس مصلي كے خشوع خضوع ميں خلل آ سكتا هے۔ نيز پهلي صف ميں جو فضيلت هے, پيچھے آ جانے كے بعد بھي وه برقرار رهے گي, اس كي كوئي دليل نهيں هے۔ اگر نهيں, تو وه اپني فضيلت كم كرواتے هوئے كيوں پيچھے آ جائے؟ اور مسبوق كے لئے فاضل كو مفضول كے درجے تك كھينچ لانے كا حق كيسے ديا جا سكتا هے؟! جب كه اس كھينچنے كي اصلا كوئي دليل هي نهيں هے۔ جس پر اعتماد كيا جائے۔
v امام كے ساتھ اس كے دائيں طرف كھڑا هو جائے؟!
كچھ لوگوں نے اس طريقه كو افضل قرار ديا هے۔ جيسا كه خود رسول الله ﷺ نے اپنےمرض الوفات كے وقت كيا تھا۔ آپ ﷺ كي اقتداء ميں آپ كے دائيں جانب حضرت ابو بكر رضي الله عنه كھڑے تھے۔ مگر اس واقعه كا اس مسئلے ميں صريح دليل هونا محل نظر هے۔ كيوں كه وه مسئله هي الگ هے۔ اور اس ميں اس كا ذكر نهيں هے كه آپ ﷺ نے ايسا اس لئے كيا تھا, كيوں كه ان كو صف ميں جگه نهيں ملي تھي۔ بلكه حضرت ابو بكر رضي الله عنه كے ساتھ عذر تھا۔ پچھلي صف متصل هونے كے سبب اس ميں واپس نهيں جا جا سكتے تھے۔ نيز اس سے بھي مصلين كے خشوع ميں خلل هو سكتا هے۔ جب وه صفوں كو چيرتا هوا امام تك جا رها هوگا۔ اور ايك انوكھا پن كي وجه سے مصلين كا دھيان نماز سے هٹ كر اس كي طرف آ جائے گا۔ اگر كچھ دير بعد دوسرا مسبوق آ گيا, تو يه اشكال تو باقي هي ره گيا۔
واضح رهے كه امام كے بائيں طرف كھڑے هونے كو بهت سے علماء نے حرام قرار ديا هے۔ بعض نے تو اس كي نماز هي باطل قرار دي هے۔ امام كے بائيں طرف كھڑے هونے كي عدم مشروعيت حضرت عبد الله بن عباس رضي الله عنه كي روايت سے بھي صراحة ثابت هے۔ لا علمي كے سبب رات كي نماز ميں جب وه آپ ﷺ كے بائيں طرف كھڑے هو گئے۔ تو آپ ﷺ نے ان كو پكڑ كر اپنے دائيں طرف كر ليا۔ صحيح البخاري
اسي طرح جب حضرت انس رضي الله عنه اور ان كي والده يا خاله كے لئے آپ ﷺ نے نماز پڑھي۔ تو حضرت انس رضي الله عنه كو اپنے دائيں جانب كھڑا كيا۔ صحيح مسلم
حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنه فرماتے هيں كه هم كسي غزوه ميں تھے۔ تو آپ ﷺ كو نماز ميں كھڑا ديكھ كر ميں بھي آپ كے بائيں جانب كھڑا هو گيا۔ تو آپ ﷺ نے ميرا هاتھ پكڑ كر مجھے اپنے دائيں طرف كر ليا۔ كچھ دير بعد جبار بن صخر رضي الله عنه آ كر آپ ﷺ كے بائيں جانب كھڑے هو گئے۔ تو آپ ﷺ نے هم دونوں كے هاتھ پكڑ كر هميں اپنے پيچھے كر ليا۔ صحيح مسلم
v نماز سے باهر ره كر دوسرے مسبوق كا انتظار كرے گا؟!
بعض لوگوں كا خيال هے كه جب تك كوئي دوسرا نه آ جائے, اسے انتظار هي كرنا چاهئے۔ خواه جماعت ختم هي كيوں نه هو جائے۔ اگر يه انتظار كچھ دير تك هو تو ٹھيك هے۔ اگر جماعت ختم هو جانے تك كوئي نه آيا, تو كيا وه يوں هي جماعت كو ترك كر دے گا؟! اور اس كے ثواب سے خود كو محروم كر لے گا؟! يه بات بھي مناسب نهيں لگتي هے۔
v اكيلا هي صف كے پيچھے جماعت ميں شامل هو جائے؟!
وه آهستگي كے ساتھ صفوں ميں جگه بنانے كي كوشش كرے۔ اگر جگه بنانے ميں نا كام رها, تو اكيلا هي صف كے پيچھے جماعت ميں شامل هو جائے۔ كيوں كه اس نے اپنے مقدور بھرجتني طاقت تھي كوشش كي۔ جب كوئي راسته نه ملا تو مجبوري سمجھ كر وه صف كے پيچھے تنها كھڑا هو گيا۔
سارے خيارات ميں يه سب سے افضل طريقه هے۔ جس ميں كم سے كم اشكالات هيں۔ جمهور كا مذهب بھي يهي هے۔ اور اكثر اهل علم نے اسي كو راجح قرار ديا هے۔
§ معذور منفرد خلف الصف كے ساتھ ركوع كے بعد كوئي آ ملا
ايسا منفرد خلف الصف جسے معذور قرار دے كر صف كے پيچھے تنها كھڑے هونے كو راجح قرار ديا گيا۔ اگر اس كے ساتھ ركوع كے بعد كوئي دوسرا مسبوق آ كر مل گيا۔ تو كيا اس پر مذكوره "منفرد خلف الصف" كا قاعده هي نافذ هوگا؟! اور كيا اس كي وه ركعت هو جائے گي؟! كيوں كه اس نے صف كے پيچھے تنها ركوع كيا۔ جب كه ركوع كے بعد اس كا عذر زائل هو گيا۔
مذكوره حالت ميں اس كي نماز هو جائے گي۔ اس ميں كسي كا كوئي اختلاف نهيں هے۔ جيسا كه حضرت ابو بكره رضي الله عنه نے تنها صف كے پيچھے ركوع كر ليا, پھر چلتے هوئے صف ميں شامل هو گئے۔ تو نبي ﷺ نے فرمايا كه: " زادك اللَّـه حرصا، ولا تَعُد" رواه البخاري.الله آپ كے حرص ميں اضافه كرے۔ ايسا دوباره مت كرنا۔ اس ميں آپ ﷺ نے ان كو اس ركعت كے اعاده كا حكم نهيں فرمايا۔ جب كه ركوع كے بعد تك صف ميں جگه هونے كے باوجود صف كے پيچھے منفرد رهے۔ تو جسے صف ميں جگه نه ملي هو, اس منفرد كے ساتھ ركوع كے بعد كوئي آ ملے, اس كي بھي نماز هو جائے گي۔
ملاحظه
مسبوق اس حالت ميں مسجد ميں داخل هوا, كه امام ركوع ميں تھا۔ اس نے تنها صف كے پيچھے هي ركوع كر ليا۔ اور پھر چلتا هوا صف ميں مل گيا۔ اس خوف سے كه كهيں امام ركوع سے اٹھ گيا, تو ركوع هي فوت نه هو جائے۔ اس پر "منفرد خلف الصف" اور "القيام في الصلاة" نيز "ترك قراءة الفاتحة" جيسے تين اهم مسئلے هيں۔ يهاں پر پهلے مسئلے كا ذكر هوا۔ دوسرے مسئلے كا ذكر آگے آ رها هے۔
اس مسئلے كا خلاصه
· جب كوئي مسبوق آئے, تو مصليوں كو چاهئے كه ايسے وقت ميں اس كے ساتھ تعاون كريں۔ رسول الله ﷺ نے فرمايا كه: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم ...) مسند أحمد وأبو داود وعند النسائي، وهو في صحيح الترغيب والترهيب" صفوں كو درست كرو, كندھوں كے درميان برابري ركھو, خالي جگهوں كو پر كرو, اور اپنے بھائيوں كے لئے نرمي ونزاكت برتو۔ امام ابو داؤد رحمه الله فرماتے هيں: "ولينوا بأيدي إخوانكم" كے معنى هيں: جب كوئي آدمي جگه تلاش كرتا هوا آئے, اور صف ميں داخل هونا چاهے, تو هر آدمي كو چاهئے كه اپنے كندھے كو نرم كر لے, تا كه وه صف ميں داخل هو جائے۔
· صف ميں سے كسي كو پيچھے كھينچنے كے بارے ميں كئي واهي ضعيف اور غير معتبر روايتيں بيان كي جاتي هيں۔ جن سے كسي قيمت حجت قائم نهيں هو سكتي۔ جب كه اس سے صف كے درميان جگه خالي هو جاتي هے, جو كه ممنوع هے۔ جيسا كه "سدوا الخلل" كي روايت گزري۔ نيز اس سے صف كو كاٹنے كا عمل لازم آتا هے۔ جو كبائر ذنوب ميں سے هے۔ رسول الله ﷺ نے فرمايا كه: "من وصل صفاً وصله الله ومن قطع صفاً قطعه الله" قال الألباني: أخرجه النسائي وغيره بسند صحيح (حجة النبي ص142). جو صفوں كو جوڑتا هے, الله اسے جوڑتا هے۔ اور جو صفوں كو كاٹتا هے, الله اسے كاٹتا هے۔
· نه هي امام كے ساتھ كھڑا هو۔ اس كي تفصيل گزر چكي هے۔ اس لئے بھي كه يه خلاف سنت هے۔ اور ايسا كرنے كي كوئي دليل نهيں هے۔ جب كه ديگر آنے والے مسبوقين كے لئے اشكال پيدا كرتا هے۔
· اور نه كسي دوسرے مسبوق كا انتظار كرے۔ بلكه جيسے هي صف ميں جگه نه ملنا متحقق هو جائے, فورا صف كے پيچھے تنها نماز شروع كر دے۔ والله تعالى اعلم وعلمه أتم وأحكم.
چوتھا مسئله:
مسبوق كا نماز ميں امام كي اقتدا
جب كوئي مسبوق مسجد ميں داخل هو, تو اسے اسي مقام سے امام كي اقتدا شروع كر ديني چاهئے, جهاں وه اسے پاتا هے۔ پھر جو اس سے ره گيا هے, اس كي تكميل كر لے۔ نه كه الگ سے اپني ترتيب سے نماز شروع كرے (الموسوعة الفقهية ج 37 ص 161).
جيسا كه رسول الله ﷺ نے فرمايا كه: "إذا أتى أحدكم الصلاة والإمام على حال فليصنع كما يصنع الإمام" رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب، وقال الألباني صحيح مشكاة المصابيح. جب تم ميں سے كوئي نماز كے لئے آئے, اور امام كسي ايك حالت ميں هو, تو اسے وهي كرنا چاهئے جو امام كر رها هے۔
نيز فرماياكه: "إذا جئتم إلى الصلاة ونحن سجود فاسجدوا" رواه أبو داود وقال الألباني: صحيح. جب تم نماز ميں آؤ, اس حال ميں كه هم سجدے ميں هوں, تو تم بھي سجده كرو۔
چوتھا مسئله:
قراءة سورة الفاتحة اور مدرك ركوع كا حكم
نماز ميں سورۀ فاتحه پڑھنے كا حكم
نماز ميں سورۀ فاتحه پڑھنے كے بارے ميں علماء كا اختلاف هے۔ بالجمله اس كے چار اقوال ملتے هيں:
§ پهلا قول امام وماموم اور منفرد كسي كے لئے واجب نهيں هے
نماز جهري هو يا سري, سورۀ فاتحه كا پڑھنا امام , ماموم, يا منفرد كسي پر واجب نهيں۔ بلكه قرآن ميں سے جو ميسر هو, اس كا پڑھنا واجب هے۔ خواه سورۀ فاتحه هو يا كوئي اور سورة يا اس كا بعض حصه۔
دليل:
- الله تعالى كا ارشاد هے كه: { فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ } المزمل: 20 لہٰذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہو اتنا ہی پڑھو۔
- حضرت ابو هريره رضي الله عنه سے مروي هے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه: "اقرأ ما تيسر معك من القرآن" قرآن ميں سے جو تمهيں ميسر هو, وه پڑھو۔ متفق عليه
§ دوسرا قول امام وماموم اور منفرد كے لئے هر حال ميں ركن هے
نماز جهري هو يا سري, امام هو يا ماموم, يا منفرد , هر حال ميں سورۀ فاتحه كا پڑھنا ركن هے۔ حتى كه جماعت كي نماز ميں جو شروع سے شاريك هو, يا مسبوق هو, سب كے لئے ركن هے۔
دليل:
- رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه:"لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب" اس كي نماز هي نهيں هوئي, جس نے سورۀ فاتحه نهيں پڑھي۔ متفق عليه.
- حضرت ابو هريره رضي الله عنه سے مروي هے كه رسول الله ﷺ نے فرمايا كه: "من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج" جس نے ايسي نماز پڑھي جس ميں اس نے سورۀ فاتحه نهيں پڑھي, تو اس كي نماز فاسد هے, فاسد هے, فاسد هے۔ حضرت سلمان فارسي رضي الله عنه نے حضرت ابو هريره رضي الله عنه سے سوال كيا: كه هم كبھي امام كے پيچھے هوتے هيں, تو هميں كيا كرنا چاهئے۔ تو حضرت ابو هريره رضي الله عنه نے ميرے بازو كو دبايا, اور فرمايا: اسے سري طور پر پڑھ ليا كرو اے فارسي۔ (أخرجه مسلم، وأبو داوود، والترمذي، والنسائي)
- حضرت عباده بن صامت رضي الله عنه سے مروي هے كه ايك روز صبح كي نماز كے بعد رسول الله ﷺ هماري طرف مڑے۔ اور دريافت فرمايا كه: "لعلكم تقرؤون خلف إمامكم؟" قالوا: نعم يا رسول الله، قال: "لا تفعلوا إلا بأم القرآن، فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها" شايد تم اپنے امام كے پيچھے قراءت كرتے هو؟ لوگوں نے كها: هاں اے الله كے رسول! آپ ﷺ نے فرمايا: ايسا مت كرو سوائے سورۀ فاتحه كے۔ كيوں كه جس نے اسے نهيں پڑھا, اس كي نماز هي نهيں هوئي۔ (أخرجه أحمد، وأبو داوود، والترمذي، والنسائي، والحاكم، والدار قطني، والبيهقي)
§ تيسرا قول امام ومنفرد پر واجب هے ماموم پر نهيں
نماز جهري هو يا سري, سورۀ فاتحه كا پڑھنا امام يا منفرد پر واجب هے۔ جب كه ماموم پر جهري نمازوں ميں واجب هے, اور نه سري نمازوں ميں۔
دليل:
o الله تعالے نے فرمايا كه: ((وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ)) الأعراف: 204 اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔
o حضرت ابو موسى اشعري رضي الله عنه سے مروي هے, رسول الله ﷺ نے فرمايا كه: "إنما جعل الإمام ليؤتم به فلا تختلفوا عليه، فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا" امام اس لئے بنايا جاتا هے, تا كه اس كي اقتداء كي جائے۔ لهذا اس سے اختلاف نه كرو۔ جب وه تكبير كهے, تو تم بھي تكبير كهو۔ اور جب وه قراءت كرے, تو تم خاموشي اختيار كرو۔ رواه مسلم
o حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنه سے مروي هے, رسول الله ﷺ نے فرمايا كه: "مَن كان له إمامٌ فقراءةُ الإمام له قراءةٌ" جس كا كوئي امام هو, تو امام كي قراءت اس كي قراءت هوئي۔ رواه أحمد وابن ماجه.
§ چوتھا قول امام ومنفرد كے لئے جهري وسري دونوں ميں اور ماموم كے لئے سري ميں ركن هے
نماز جهري هو يا سري, سورۀ فاتحه كا پڑھنا امام اور منفرد دونوں كے لئے ركن هے۔ اور ماموم كے لئے سري نمازوں ميں ركن هے, جهري نمازوں ميں نهيں۔
دليل:
سابقه وجوب انصات اور وجوب قراءة فاتحه كے دلائل سے هي انھوں نے استدلال كيا هے۔ اور مقارنه كے بعد اس نتيجے تك پهنچے كه صرف جهري نمازوں ميں امام كي قراءت سن لے تو كافي هے۔ ماموم كے لئے سورۀ فاتحه پڑھنا ركن نهيں۔ باقي امور ميں يه دوسرے قول كے ساتھ هيں۔
دلائل كا مقارنه اور وجوه ترجيح
تمام دلائل كا جائزه لينے كے بعد جو ظاهر هوتا هے۔ اس كے مطابق دوسرا قول هي راجح هے۔ كيوں كه اس كے دلائل قوي هيں۔ نيز اس پر كم سے كم اعتراضات هيں۔ ذيل ميں تمام ادله كا سرسري جائزه پيش كيا جاتا هے۔
قول اول كے دلائل كا جائزه
o الله تعالى كا ارشاد هے كه: { فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ } المزمل: 20 لہٰذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہو اتنا ہی پڑھو۔
يه حكم عام هے۔ اور سورۀ فاتحه كي نفي والي روايتيں اس عموم كے لئے مخصص هيں۔ يا سورۀ فاتحه كے بعد كي قراءت كے بارے ميں هے۔ جو در اصل سنت هے۔
o حضرت ابو هريره رضي الله عنه سے مروي هے۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه: "اقرأ ما تيسر معك من القرآن" قرآن ميں سے جو تمهيں ميسر هو, وه پڑھو۔ متفق عليه
سابقه آيت هي كي طرح يا تو يه عام هے۔ جس كي تخصيص "لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب" كي روايت نے كر دي۔ يا يه ما بعد الفاتحة كے بارے ميں هے۔ اس طرح سے دلائل ونصوص ميں كوئي تعارض نهيں رهتا۔
قول ثالث كے دلائل كا جائزه
اس آيت ميں حكم عام هے۔ اور بظاهر حديث وجوب قراءت فاتحه اس كے خلاف هے۔ لهذا نصوص ميں تطبيق كي ضرورت هے۔ جب تك تطبيق محال نه هو, تب تك كسي نص كو مرجوح يا منسوخ قرار نهيں ديا جا سكتا۔ جب كه يهاں دونوں حكم پر عمل ممكن هے۔ اس لئے دونوں محكم اور معمول هيں۔ كوئي منسوخ يا مرجوح نهيں۔ اور اس كي دو شكليں هو سكتي هيں:
1. آيت كے حكم انصات اور عدم قراءت كو ماموم كے لئے, اور حديث كے وجوب قراءت كو امام يا منفرد كے لئے مان ليا جائے۔
2. حديث كے حكم وجوب قراءت فاتحه پر عمل كر ليا جائے۔ پھر آيت كے حكم انصات پر عمل كرتے هوئے دوسري سورتيں نه پڑھي جائيں۔ بلكه خاموشي سے امام كي قراءت سني جائے۔
دوسري صورت كي وجه ترجيح:
پهلي صورت ميں حديث كو امام يا منفرد كے لئے خاص كرنے كي كوئي دليل نهيں هے۔ جب كه دليليں اس كے مخالف هيں۔ جيسا كه حديث عباده ميں امام كے پيچھے سورۀ فاتحه پڑھ لينے كے بعد خاموشي كا حكم هے۔ نيز حضرت ابو هريره رضي الله عنه نے حضرت سلمان فارسي رضي الله عنه كے سوال كا جواب ديتے هوئے فرمايا, كه جب تم امام كے پيچھے رهو, تو سري طور پر سورۀ فاتحه پڑھ لو۔ پھر امام كي قراءت كو غور سے سنو۔ لهذا اس اعتبار سے دوسري صورت هي متعين هو جاتي هے۔ جو كه سورۀ فاتحه كا امام كے پيچھے پڑھنا واجب هے۔
بعض علماء نے مذكوره آيت كے بعد كي آيت ميں مذكور اسلوب و انداز كو بھي اس كي تائيد ميں پيش كيا هے۔ جس ميں هے كه سري طور پر الله كا ذكر كيا جائے, جيسا كه حضرت ابو هريره رضي الله عنه نے امام كے پيچھےسري طور پر سورۀ فاتحه پڑھ لينے كا حكم ديا۔ بعد والي آيت ميں هے: ((وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ)) الأعراف: 205 اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔
دوسري دليل ميں جو حديث پيش كي گئي هے۔ اس ميں بھي وهي باتيں هيں, جو گزشته آيت ميں هے۔ لهذا اس كے اعاده كي ضرورت نهيں۔
تيسري دليل ميں درج روايت "ضعيف جدا" هے۔ اس لئے اس كا كوئي اعتبار نهيں هے۔ اس معنى كي اور كئي روايتيں ذكر كي جاتي هيں, جو ساري ضعيف يا واهي هيں۔
اس تفصيل سے يه واضح هو جاتا هے, كه مذكوره دونوں صورتوں ميں دوسري صورت هي متعين هو جاتي هے۔ جس كے مطابق امام هو منفرد هو يا امام كے پيچھے كوئي ماموم, سورۀ فاتحه كے بغير كسي كي نماز نهيں هوتي۔ نماز جيسي عبادت كے لئے يهي احوط بھي هے۔ اور اسلم بھي۔ والله تعالے اعلم
مدرك ركوع كا حكم
وه مسبوق جو امام كو ركوع ميں پائے, اس كا كيا حكم هے؟
اس ميں علماء كا اختلاف هے۔ اور سابقه مسئلۀ فاتحه هي اس كي بنياد هے۔ جنھوں نے سورۀ فاتحه كو هر حال ميں ركن كها هے۔ ان كے نزديك مدرك ركوع مدرك ركعت نهيں هے۔ كيوں كه جس ركعت ميں اس سے سورۀ فاتحه فوت هو گيا۔ وه ركعت هوئي هي نهيں۔
اور جن كے نزديك ماموم كے لئے سورۀ فاتحه واجب نهيں هے۔ ان كے مطابق ركوع ميں امام كے ساتھ ملنے والے كي ركعت هو گئي۔ كيوں كه اس سے كوئي ركن فوت نهيں هوا۔
راجح ووجه ترجيح
اس مسئلے ميں راجح يه هے كه مدرك ركوع مدرك ركعت هے۔ اور اس كي دليل حضرت أبو بكرة رضي الله عنه كي حديث هے۔ جس ميں هے كه انھوں نے نبي صلى الله عليه وسلم كو ركوع كي حالت ميں پايا، تو صف سے پيچھے هي انھوں نے ركوع كر ليا, پھر صف سے آ ملے۔ اس خوف سے كه كهيں ركوع فوت نه هو جائے۔
جب نبي ﷺ نماز سے فارغ هوئے, تو دريافت فرمايا كه ايسا كس نے كيا تھا؟ حضرت أبو بكرة رضي الله عنه نے جواب ديا كه: ميں نے اے الله كے رسول! آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمايا كه: "زادك الله حرصاً، ولا تعد" الله تمهارے حرص ميں اضافه كرے, ايسا دوباره مت كرنا۔ صحيح البخاري
حضرت ابو بكره رضي الله عنه سے يهاں تين باتيں هوئي تھيں۔ جس پر آپ ﷺ نے "ولا تعد" فرمايا۔ تو كيا يه ممانعت تينوں عمل كو شامل هے؟ وه تين باتيں يه هيں:
- دوڑتے هوئے نماز كے لئے آنا۔
- صف سے پهلے ركوع كرنا۔
- ركوع كے ملنے سے ركعت كو شمار كرلينا۔
پهلي بات تو بلا شك ممانعت ميں شامل هے۔ جيسا كه دوسري روايتوں ميں بھي اس كي ممانعت آئي هے۔ دوسري بات محل نظر هے۔ كيوں كه اس كي صراحت نهيں هے۔ جب كه بعض صحابه سے اس واقعه كے بعد بھي ايسا كرنا منقول هے۔ ليكن افضل واحوط يه هے كه ايسا نه كيا جائے۔ اور تيسري بات اس ميں قطعا داخل نهيں هے۔ كيوں كه آپ ﷺ نے انھيں نماز كو دهرانے كا حكم نهيں ديا۔ جس طرح "مسيء في صلاته" كو حكم ديا تھا۔ كيوں كه اس صورت ميں ايك ركعت ادھوري ماني جاتي۔ اس كا مطلب آپ ﷺ نے مدرك ركوع كو مدرك ركعت شمار كيا۔
لهذا جب نص صريح موجود هے۔ تو قياس يا اجتهاد كو اس ميں كوئي دخل نهيں هے۔ سورۀ فاتحه چھوٹ جانے كے با وجود اس صورت ميں ركعت هو جائے گي۔ كيوں كه يه نص اس كے لئے مخصص هے۔
مدرك ركوع كو مدرك ركعت اس شرط كے ساتھ مانا جائے گا۔ كه وه ايك لمحه كے لئے تكبير تحريمه كهه كر هاتھ باندھ لے۔پھر تكبير كهتا هوا ركوع ميں جائے۔ اگر كوئي سيدھا ركوع ميں جا ملے, تو بهت سے علماء نے اس ركعت كو تسليم نهيں كيا هے۔ كيوں كه اس صورت ميں اس كے تكبير تحريمه كے ساتھ ساتھ قيام بھي فوت هو گيا۔
بعض علماء نے "ولا تعد" بفتح التاء وضم العين كو "العدو" يعني دوڑ كر نه آيا كرو سے ضبط كيا هے۔ اور كچھ لوگوں نے بكسر العين يعني اس ركعت كا اعاده نه كرو بيان كيا هے۔ ليكن امام ابن حجر رحمه الله وغيره نے صحيح بخاري كي روايت كو هي محفوظ قرار ديا هے۔ جس كے مطابق اس كي تفصيل گزري۔
شيخ ابن عثيمين رحمه الله نے ايك نظري دليل كا بھي ذكر كيا هے۔ كه سورۀ فاتحه كا وجوب اس لئے بھي اس سے ساقط مانا جائے گا۔ كه قيام هي اس سے فوت هو گيا هے۔ جس ميں سورۀ فاتحه پڑھي جاتي هے۔ اور جس وجوب كا محل فوت هو جائے, وه وجوب ساقط هو جاتا هے۔ مثلا وضو ميں هاتھ كا دھونا واجب هے۔ اگر كسي كا هاتھ هي نهيں هے۔ تو اس سے هاتھ كے دھونے كا وجوب ساقط هو جائے گا۔
ماموم كے "آمين" كهنے سے وه سورۀ فاتحه كے قاريوں ميں شامل هو جاتا هے۔ جيسا كه الله تعالے نے حضرت موسى عليه السلام كي دعا پر فرمايا: {قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا} يونس: 89 تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی۔
جب كه دعا حضرت هارون عليه السلام نے نهيں كي تھي۔ اس لئے اگر حضرت عباده بن صامت رضي الله عنه كي حديث نه هوتي۔ تو يه كهنا افضل هوتا كه امام كي قراءت فاتحه ماموم كے لئے كافي هے۔ مگر حديث عباده نے سورۀ فاتحه كي قراءت كو ماموم پر متعين كر ديا هے۔ اور نص كي موجودگي ميں قياس واجتهاد كي اهميت نهيں هوتي۔ اس لئے نص كو قبول كرتے هوئے ماموم پر سورۀ فاتحه كو واجب قرار ديا گيا هے۔
چھٹا مسئله:
مسبوق كي فوت شده نمازوں كو ادا كرنے كي فعلي كيفيت
مسبوق كي فوت شده نماز كي ادائيگي كيسے كي جائے گي؟ اس بارے ميں علماء كا اختلاف هے۔
ý پهلا قول: امام كے ساتھ ملنے والا نماز كا حصه امام هي كي طرح مسبوق كي نماز كا آخري حصه هے۔
اگر ايك ركعت يا اس سے زياده فوت هوئي هے, تو اس حالت ميں امام كے ساتھ ادا كي جا رهي اس كي نماز اس كے لئےوهيں سے شروع ماني جائے گي, جهاں سے ملي هے۔ اور جو حصه فوت هو چكا هے, وه نماز كا پهلا حصه هے۔ امام كے ساتھ جو حصه ملا, وه نماز كا آخري حصه تھا۔ لهذا امام كے سلام پھيرنے كے بعد مسبوق اس نماز كے پهلے حصے كو ادا كرے گا۔ جو اس سے فوت هو گيا هے۔
ý دوسرا قول: امام كے ساتھ ملنے والا نماز كا حصه امام كي نماز كا آخري حصه هے۔ مگر مسبوق كي نماز كا پهلا حصه هے۔
مسبوق كو جس مقام سے نماز ملي, وهيں سے اس كي نماز كي ابتداء هوئي۔ خواه امام كي نماز كا كوئي بھي حصه هو۔ لهذا امام كے سلام پھيرنے كے بعد مسبوق اپنے فوت شده حصے كو ادا كرے گا۔ جو كه نماز كا آخري حصه هے۔
اس اختلاف كا سبب
در اصل حديث ميں دو لفظوں كا استعمال هوا هے۔ ايك لفظ هے: "وما فاتكم فاقضوا" (أخرجه النسائي. شيخ الباني رحمه الله نے اسے صحيح قرار ديا هے) يعني نماز كا جو حصه فوت هو گيا هے, اس كي قضاء كر لو۔ اور قضاء كرنے كا مطلب هے كه چھوٹا هوا حصه پهلا حصه هے۔ جو فوت هو گيا هے۔ اور جسے امام كے سلام پھيرنے كے بعد قضاء كرے گا۔
دوسرا لفظ هے: "وما فاتكم فأتموا" (متفق عليه) يعني نماز كا جو حصه فوت هو گيا هے, اس كا اتمام كر لو۔ تو جس نے اس لفظ كو ليا ۔ اس نے دوسرے قول كو اختيار كيا۔ كيوں كه نماز كا پهلا حصه تو امام كے ساتھ ادا كر ليا۔ گرچه امام كے لئے نماز كا آخري حصه تھا۔ لهذا اس كے سلام پھيرنے كے بعد اپني ناقص نماز كي تكميل كرے۔ جو اس سے ره گئے هيں۔
اس اختلاف كا اس نماز پر اثر
پهلے قول كے مطابق چوں نماز كا پهلا حصه چھوٹا هے, لهذا مسبوق كو امام كے سلام پھيرنے كے بعد نئے سرے سے جس طرح نماز شروع كي جاتي هے, ٹھيك اسي طرح تكبير تحريمه دعاء استفتاح وغيره كے ساتھ پڑھني چاهئے۔ اور جس مقام پر امام كے ساتھ ملا هو, اس جگه اپني نماز ختم كرني چاهئے۔
جب كه دوسرے قول كے مطابق ملنے والے ركوع سے اس كي پهلي ركعت شروع هوگي۔ اس لئے امام كے سلام پھيرنے كے بعد وه آگے كي تكميل كرے گا۔ نيز خواه امام كے ساتھ جس مقام پر بھي ملا هو, اپني نماز كا اختتام تشهد اور سلام پر هي كرے گا۔ جيسے عام طور پر هوتا هے۔
راجح قول
پهلے قول كے مطابق كئي اشكال سامنے آتے هيں۔ تكبير تحريمه اگر درميان صلاة انجام دے, تو اس كي نماز كے فاسد هونے ميں كسي كا اختلاف نهيں هے۔ نه هي امام سے ملنے كي جگه پر نماز كو ختم كرنا نماز كي هيئت هے۔ شايد اسي وجه سے اس طرح كي قضاء كے قائل اس قول كے قائل بھي نهيں هيں۔ اس وجه سے بعض علماء نے عملا دوسرے قول كو اختيار كيا هے۔ جب كه قراءت كے لحاظ سے پهلے قول كو ترجيح دي هے۔
ايسے ميں بهت سارے اشكالات سے بچتے هوئے دوسرے قول كو اختيار كرنا هي راجح معلوم هوتا هے۔ رهي بات حديث ميں وارد لفظ "فاقضوا" كي, تو شيخ ابن عثيمين رحمه الله فرماتے هيں: كه يه اتمام كے معنى ميں بھي وارد هوا هے۔ جيسا كه الله كے قول: : "فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَات" (فصلت: 12) ميں اتمام كے معنى پر استعمال هوا هے۔ لهذا دوسرا قول هي راجح اور اقرب إلى الصواب هے۔
مسبوق كي فوت شده نمازوں كي ادائيگي ميں قراءت كي كيفيت
امام كے ساتھ ملنے والي ركعتوں ميں مسبوق سورۀ فاتحه كے علاوه دوسري سورت بھي پڑھے ۔ گرچه ان ركعتوں ميں امام صرف سورۀ فاتحه پڑھتا هے۔ اگر وه امام كے ساتھ والي ركعتوں ميں دوسري سورت نه پڑھ سكا هو, تو بعد كي اتمام والي ركعتوں ميں سورۀ فاتحه كے بعد دوسري سورتيں پڑھ لے۔ اور اگر امام كے ساتھ ملنے والي ركعت جهري هے۔ مثلا فجر كي دوسري ركعت ميں كوئي ملا هو, تو اسے سورۀ فاتحه پر هي اكتفا كرنا چاهئے۔ جب كه دوسري ركعت, جسے امام كے سلام پھيرنے كے بعد ادا كرے گا۔ اس ميں سورۀ فاتحه كے علاوه دوسري سورت بھي پڑھے گا۔
ساتواں مسئله:
مسبوق كي امامت جب وه اتمام كر رها هو
امام كے سلام پھيرنے كے بعد جب مسبوق اتمام كے لئے كھڑا هو, تو وه ماموم سے مفرد كے حكم ميں آ جاتا هے۔ كيا اس حالت ميں كوئي اس كي اقتداء ميں نماز شروع كر سكتا هے؟ اس ميں علماء كا اختلاف هے۔
ý پهلا قول: امام كے سلام پھيرنے كے بعدمسبوق كي امامت صحيح نهيں هے۔
اس كے قائل احناف اور مالكيه هيں۔ امام مالك رحمه الله نے قدرے تفصيل كرتے هوئے فرمايا: اگر اس نے ايك ركعت يا اس سے زياده امام كے ساتھ پائي هو, تو امام كے سلام پھيرنے كے بعد اس كي اقتداء ميں نماز شروع كرنے والے كي نماز صحيح نهيں هوگي۔ گرچه مسبوق نےاس كي امامت كي نيت بھي كر لي هو۔ البته اگر وه آخري تشهد ميں امام كے ساتھ ملا هو, اور بعد ميں آنے والے كي امامت كي نيت كر لے, تو اس كي امامت صحيح هو جائے گي۔
شيخ شنقيطي فرماتے هيں۔ آخري ركعت ميں ركوع كے بعد ملنے والے مسبوقين آپس ميں طے كر ليں, كه امام كے سلام پھيرنے كے بعد هم ميں سے فلاں امام بن جائے گا۔ تو ايسي صورت ميں اس مسبوق كي امامت كو صحيح قرار ديا هے۔ شيخ ابن جبرين بھي اسي كے قائل هيں۔
پهلے قول كےدلائل:
§ حديث: " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فلا تختلفوا عليه..." (متفق عليه) امام اقتداء كئے جانے كے لئے بنايا گيا هے۔ تو اس سے اختلاف نه كيا كرو۔ جب ماموم امام كے تابع هوا, تو اس كي اقتداء كيسے كي جا سكتي هے۔ امام اور ماموم كا كام تقسيم كيا هوا هے۔ امام كا اقتداء كيا جانا, اور ماموم كا اقتداء كرنا۔ تو ايك هي نماز ميں ايك هي شخص دونوں كيسے هو سكتا هے؟
جواب: جب امام كے ساتھ كوئي عذر لاحق هونے كے سبب امامت كے لئے مسبوق كا استخلاف بالاتفاق جائز هے۔ تو مسبوق هونے كے عذر كے سبب مسبوق كي امامت كيوں صحيح نهيں هوگي؟
§ حديث: "الإمام ضامن والمؤذن مؤتمن" (رواه أبو داود, والترمذي وصححه الألباني) امام ذمه دار اور مؤذن امانت دار هے۔ مسبوق اگر ركوع ميں ملے, تو اس كي طرف سے امام تحمل كرليتا هے۔ اور سورۀ فاتحه كا وجوب اس سے ساقط هو جاتا هے۔ تو وه كسي اور كا تحمل كيسے كر سكتا هے؟
جواب: اس كا جواب دو طرح سے ديا گيا هے:
o اولا: يه محل نزاع نهيں هے۔ امام كےتحمل كي بات امام كي اقتداء كے دوران كي هے۔ جب كه مسبوق كي امامت كي بات امام كے سلام پھيرنے كے بعد كي هے۔ جب مسبوق منفرد كے حكم ميں آ جاتا هے۔ سجدۀ سهو وغيره كرنا هو, تو امام تحمل نهيں كرتا۔
o ثانيا: جس طرح استخلاف ميں ماموم كي امامت صحيح هو جاتي هے۔ اور اب تك امام جس كا تحمل كر رها تھا, اب وه مامومين كا تحمل كرنے لگا۔ وهي حال يهاں بھي هے۔ جس طرح وهاں عذر تھا, اسي طرح يهاں بھي عذر هے۔
§ دليل نظري: امامت اعلى درجه هے۔ اور ماموم ادنى درجه۔ تو پھر بلا عذر ادنى درجه سے اعلى درجه كي طرف كيسے منتقل هوا جا سكتا هے؟ جب كه اس سے بچنے كے لئے انفرادي طور پر نماز ادا كي جا سكتي هے۔
جواب: اس كا يه جواب ديا گيا هے۔ كه يه ادنى سے اعلى درجه كي طرف منتقلي نهيں هے۔ بلكه ايك جماعت سے دوسري جماعت كي طرف انتقال هے۔ پهلے جماعت تھي۔ اب مسبوق كے امام بن جانے سے دوسري جماعت بن گئي۔
§ دليل نظري: عهد سلف ميں يه بات معروف نهيں تھي۔ نه هي صحابه ميں سے كوئي اس طرح كرتے تھے۔ بلكه جب اس طرح كي نوبت آتي, تو وه انفرادي طور پر نماز پڑھ ليتے۔ يا اگر زياده لوگ جمع هو جاتے, تو دوسري جماعت كر ليتے۔
جواب: يه دليل مضبوط هے۔ گرچه ايك آدھ واقعه اس طرح كے ملتے هيں۔ تا هم اسے سلف كا عام معمول به عمل نهيں كها جا سكتا۔
§ دليل نظري: اگر مسبوق كي امامت جائز هوئي, تو يه سلسله دير تك جاري ره جائے گا۔ پهلي جماعت كا مسبوق امام بنا, پھر اس جماعت كا مسبوق اس كے بعد والوں كے لئے امام بنا۔ اس طرح يه تسلسل جاري هو جائے گا۔
جواب: يه ايك قوي بات هے۔ كيوں كه اس تسلسل كے سبب جماعت سے تهاون اور سستي برتي جائے گي۔ نيز يه سلسله ايك ايسي بدعت كو جنم دے گا۔ جس كا وجود عهد سلف ميں بالكل نه تھا۔
ý دوسرا قول: جب مسبوق اتمام كر رها هو تو اس كي امامت صحيح هے۔
مسبوق جب امام كے سلام پھيرنے كے بعد اتمام كے لئے كھڑا هو, ايسے ميں كوئي آ جائے۔ اور اس كي اقتداء ميں نماز شروع كر دے۔ تو اس كي امامت صحيح هوگي۔ الا يه كه وه جمعه كي نماز هو۔
اس كے قائل شوافع اور حنابله هيں۔ اور اسي كو شيخ الاسلام ابن تيميه شيخ ابن باز وغيرهم نے اختيار كيا هے۔ شيخ ابن عثيمين رحمه الله فرماتے هيں: جائز هے, مطلوب يا مستحسن نهيں۔ يه عمل سنت سے زياده بدعت كے قريب هے۔ لهذا ترك اولى هے۔ نئي جماعت كي اقتداء ميں يا انفرادي نماز پڑھنا هي افضل هے۔ كهيں يه سلسله بدعت كي طرف نه لے جائے۔
دوسرے قول كے دلائل:
حديث ابن عباس رضي الله عنهما: "نمت عند ميمونة والنبي صلى الله عليه و سلم عندها في تلك الليلة فتوضأ ثم قام يصلي فقمت على يساره فأخذني فجعلني عن يمينه..." (البخاري ومسلم) اس رات ميں ام المومنين حضرت ميمونه رضي الله عنها كے يهاں سو گيا۔ جس رات نبي ﷺ ان كے پاس تھے۔ تو آپ ﷺ نے وضو فرمايا اور نماز ميں كھڑے هو گئے۔ ميں بھي آپ كے بائيں جانب كھڑا هو گيا۔ تو آپ ﷺ نے مجھے پكڑ كر اپنے دائيں طرف كر ليا۔
يه حديث گرچه نوافل اور رات كي نمازوں كے بارے ميں هے۔ مگر اس ميں مفرد كو حالت نماز ميں امام بنا لينے كي دليل هے۔ تو مسبوق بھي تو امام كے سلام پھيرنے كے بعد مفرد هي هوتا هے۔
حديث أنس رضي الله عنه قال: "كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يصلي في رمضان فجئت فقمت إلى جنبه وجاء رجل آخر فقام أيضا حتى كنا رهطا فلما حس النبي صلى الله عليه و سلم أنا خلفه جعل يتجوز في الصلاة" (رواه مسلم) رسول الله ﷺ رمضان ميں نماز پڑھ رهے تھے۔ تو ميں بھي آ كر آپ ﷺ كے پهلو ميں كھڑا هو گيا۔ پھر اور ايك آدمي آيا, اور وه بھي كھڑا هو گيا۔ حتى كه هماري ايك جماعت بن گئي۔ جب نبي ﷺ كو احساس هوا, كه ميں آپ ﷺ كے پيچھے هوں۔ تو آپ ﷺ نماز ميں تخفيف كرنے لگے۔
اس ميں بھي منفرد كے امام ميں منتقل هو جانے كي دليل هے۔ اور مسبوق بھي امام كے سلام پھير لينے كے بعد منفرد كے حكم ميں آ جاتا هے۔ كيوں كه اس دوران نقص وزيادتي يا سهو ونسيان واقع هو جائے, تو اسے مستقل سجدۀ سهو كرنا پڑتا هے۔
نبي ﷺ كا حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه كو امامت كے لئےاپنا نائب مقرر كرنے كے بارے ميں حضرت عائشة رضي الله عنها كي حديث: "فجاء رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى جلس عن يسار أبي بكر قالت فكان رسول الله صلى الله عليه و سلم يصلي بالناس جالسا وأبو بكر قائما يقتدي أبو بكر بصلاة النبي صلى الله عليه و سلم ويقتدي الناس بصلاة أبي بكر..." (رواه البخاري ومسلم) ... تو رسول الله ﷺ آئے, حتى كه حضرت ابو بكر رضي الله عنه كے بائيں جانب بيٹھ گئے۔ حضرت عائشة رضي الله عنها فرماتي هيں: رسول الله ﷺ بيٹھ كر لوگوں كي امامت فرما رهے تھے۔ حضرت ابو بكر رضي الله عنه كھڑے هو كر آپ ﷺ كي نماز كي اقتداء كر رهے تھے۔ اور لوگ حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه كي نماز كي اقتداء كر رهے تھے۔
اس روايت كے مطابق رسول الله ﷺ مسبوق تھے, اور امام بن گئے۔ جب كه حضرت ابو بكر صديق رضي الله عنه امام سے ماموم بن گئے۔
حضرت عمر رضي الله عنه كي شهادت كے واقعه ميں حضرت عمرو بن ميمون كا اثر: "... وتناول عمر يد عبد الرحمن بن عوف فقدمه ..." (رواه البخاري) حضرت عمر رضي الله عنه نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه كا هاتھ پكڑ كر آگے بڑھا ديا۔ تو باقي نماز كي تكميل حضرت عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه نے فرمائي۔ جو كه دوسرے امام تھے۔ اور ماموم تھے۔ جو امام بن گئے۔ ان كي نيت نماز كے شروع ميں ماموم كي تھي۔ بعد ميں امام كي نيت هو گئي۔ ايك جماعت ميں دو امام نے نماز پڑھائي۔ تقريبا يهي كيفيت مسبوق كي امامت ميں بھي هے۔
مذكوره دلائل كے علاوه جماعت كي نمازوں ميں جو فضيلت اور ترغيب هے۔ ان كو بھي اس قول كي تائيد ميں پيش كيا گيا هے۔ تا كه ان فضيلتوں كو حاصل كيا جا سكے۔
راجح اور وجه ترجيح
مذكوره دلائل كے پيش نظر يه بات واضح هو جاتي هے۔ كه مسبوق كي امامت صحيح هے۔ اور اس كي اقتداء ميں نماز پڑھي جا سكتي هے۔ تا كه ايسي صورت ميں كوئي جماعت كي فضيلت سے محروم نه ره جائے۔ ساتھ هي اس ميں شك نهيں كه جماعت كي فضيلت حاصل كرنے كے لئے اول وقت ميں مسجد پهونچنا چاهئے۔
البته اس ضمن ميں شيخ ابن عثيمين رحمه الله كي بات بهترين اثر ركھنے والي هے۔ انھوں نے فرمايا: مسبوق كي امامت صحيح هے۔ مگر خلاف اولى هے۔ اور يه عمل سنت سے كهيں زياده بدعت سے قريب لگتا هے۔
آٹھواں مسئله
مسبوق كو امام كا قائم مقام بنانا
امام كے ساتھ اگر كوئي عذر لاحق هو جائے, اور وه نماز كي تكميل سے پهلے اس نماز سے انسحاب كرنا چاهے۔ تو اس كے لئے مامومين ميں سے كسي ايك كو اپنے قائم مقام كھڑا كر كے امام بنا دينا جائز هے۔ جو لوگوں كي باقي كي نماز كي تكميل كرے۔ البته امام كا قائم مقام بنايا جانے والا شخص مسبوق نه هو ۔ اگر امام نے مسبوق كو هي اپنا قائم مقام بنايا۔ تو اس كي امامت بالاتفاق صحيح هو جائے گي۔ (الموسوعة الفقهية)
شيخ ابن عثيمين رحمه الله فرماتے هيں: "اولا مسبوق كو امام كا قائم مقام نهيں بنانا چاهئے۔ كيوں كه اس سے ديگر مامومين كي نماز ميں خلل اور افرا تفري هونے كا امكان هے۔ لهذا ايسے شخص كو بنانا چاهئے, جس پر قضاء نه هو۔ تاكه مامومين نماز پوري هونے كے بعد اس كے ساتھ هي سلام پھيريں۔
ليكن اگر ايسا هو جائے كه قائم مقام مسبوق هوا۔ تو مامومين كي نماز كي تكميل (سابق امام هي كے اعتبار سے, نه كه اپنے اعتبار سے) كے بعد ان كو ان كي آخري تشهد ميں چھوڑے رهے۔ اور اپني باقي مانده نماز كي تكميل كرے۔ اس ميں مامومين اس كي متابعت نه كريں۔ بلكه بيٹھ كر اس كي نماز مكمل هونے كا انتظار كريں۔ پھر وه مامومين كے ساتھ سلام پھيرے" (فتاوى نور على الدرب)
نواں مسئله
جمعه كي نماز ميں مسبوق كا حكم
جمعه كي نماز ميں اگر دونوں ركعت چھوٹ جائيں, تو اسے ظهر كي نماز پڑھني پڑے گي۔ جمعه كو پانے كے لئے كم از كم ايك ركعت كا ملنا ضروري هے۔ جيسا كه حضرت ابو هريره رضي الله عنه كي مرفوع روايت ميں هے كه: " من أدرك ركعة من الجمعة فقد أدرك الصلاة" (رواه الأثرم وابن ماجه ولفظه: "فليضف إليها أخرى" شيخ الباني رحمه الله نے اسے صحيح قرار ديا هے) جس نے جمعه كي ايك ركعت پائي, تو اس نے نماز كو پا ليا۔ يه اور بات هے كه تبكير اور خطبه سننے وغيره جيسي فضيلتوں سے وه محروم رها۔ جب اس نے نماز كو پا ليا, تو اس نماز كو اسي نماز كي طرح اتمام كرے۔ يعني جمعه كي نماز كو جمعه هي كي نماز كي طرح دو ركعت پوري كر لے۔ نه كه ظهر كي طرح چار ركعت پڑھے۔
نيز ان هي سے دوسري روايت هے۔ كه رسول الله ﷺ نے فرمايا: "من أدرك من الصلاة ركعة فقد أدرك الصلاة" (رواه النسائي والترمذي. شيخ الباني رحمه الله نے اسے بھي صحيح قرار ديا هے) جس نے كسي نماز ميں سے ايك ركعت پائي, تو اس نے اس نماز كو پا ليا۔
امام ترمذي رحمه الله فرماتے هيں كه: "يه حديث حسن صحيح هے۔ اور اكثر صحابۀ كرام وديگر اهل علم كا اسي پر عمل هے۔ وه كهتے هيں: جس نے جمعه كي ايك ركعت پائي, وه اس ميں ايك ركعت اور پڑھ لے۔ اور جو تشهد ميں آ ملے, وه چار ركعت (ظهر) پوري كرے۔ سفيان ثوري بن مبارك شافعي احمد اور اسحاق اسي كے قائل هيں" رحمهم الله اجمعين۔
دسواں مسئله
عيدين كي نماز ميں مسبوق كا حكم
عيدين كي نماز دو ركعت عام نمازوں كي طرح هي هے۔ پهلي ركعت ميں تكبير تحريمه كے بعد سات زائد تكبيرات كهے جاتے هيں۔ پھر دعاء استفتاح كے بعد سورۀ فاتحه اور دوسري سورت پڑھي جاتي هے۔ جب كه دوسري ركعت ميں كھڑے هونے كے بعد پانچ زائد تكبيرات كهے جاتے هيں۔ پھر سورۀ فاتحه اور دوسري سورت پڑھي جاتي هے۔ ان زائد تكبيرات ميں رسول ﷺ سے هاتھوں كو اٹھانا ثابت نهيں هے۔ البته بعض صحابۀ كرام رضوان الله عليهم اجمعين عيدين كي نماز ميں تكبيرات زوائد كهتے هوئے رفع اليدين كيا كرتے تھے۔
عيدين كي نماز ميں مسبوق كے بارے ميں شيخ ابن عثيمين رحمه الله سے سوال كيا گيا۔ كه اگر كسي كے تكبيرات زوائد فوت هو جائيں تو وه كيا كرے؟ كيا وه فوت هو گئے, يا ان كا قضاء كرے؟
شيخ رحمه الله نے جواب ميں فرمايا: اگر كوئي تكبيرات كے دوران امام سے ملے۔ تو سب سے پهلے تكبير تحريمه كهه كر نماز ميں داخل هو۔ اس كے بعد جتني تكبيرات امام كے ساتھ مل جائيں ان كي اتباع كرے۔ جو فوت هو چكے هيں, وه اس سے ساقط هو گئے۔ مجموع فتاوى ابن عثيمين
اور اگر ايك ركعت فوت هو جائے, تو دوسري ركعت كا اتمام كرے گا۔ اس كے شروع ميں پانچ تكبيرات زوائد بھي پڑھے گا۔ جو كه عيدين كي نماز ميں دوسري ركعت كي ابتداء هے۔
در اصل عيدين كي نماز ميں تكبيرات زوائد كو دوران نماز قضاء كرنے كے لئے مناسب محل نهيں هے۔ لهذا فوت شده تكبيرات كو ساقط مان لينا هي مناسب حل هے۔ اس لئے بھي كه نماز عيدين ميں تكبيرات زوائد مسنون هيں۔ ان كے وجوب كي كوئي دليل نهيں هے۔
گيارهواں مسئله
جنازه كي نماز ميں مسبوق كا حكم
جنازے كي نماز ميں چار تكبيرات هوتي هيں۔ پهلي تكبير كے بعد بغير دعاء استفتاح كے سورۀ فاتحه, اور چاهے تو ساتھ ميں كوئي دوسري سورت پڑھے۔ پھر دوسري تكبير كهه كر رسول الله ﷺ پر درود وسلام بھيجے۔ پھرتيسري تكبير كهے۔ اور جو دعائيں ماثور هيں, ان كو پڑھے۔ اس كے بعد چوتھي تكبير كهه كر داهنے طرف يا دونوں طرف سلام پھير دے۔ مذكوره تكبيرات ميں رسول الله ﷺ سے رفع اليدين ثابت نهيں هے۔ البته بعض صحابۀ كرام كے عمل سے اس كا ثبوت ملتا هے۔
اگر كوئي شخص اس حال ميں پهنچے, كه امام اپني كسي تكبير كو پوري كرنے والا هو۔ تو ماموم كو انتظار كرنا چاهئے۔ حتى كه امام اپني اس تكبير سے فارغ هو جائے۔ اس كے بعد جب امام تكبير كهے, تو ماموم اس كے ساتھ نماز ميں داخل هو جائے۔ اگر كسي نے بلا انتظار كئے نماز ميں شريك هو گيا۔ تو اس كي نماز صحيح هو جائےگي۔ مگر اس كي وه تكبير شمار نهيں هوگي۔ يه تكبير يا اس كے علاوه جو بھي تكبيرات جنائز فوت هوئے هيں, امام كي چوتھي تكبير كے بعد مسبوق ان كي اتمام كرے گا۔ اس كے بعد سلام پھيرےگا۔ يهي جمهور كا قول هے۔ (الموسوعة الفقهية)
بارهواں مسئله
سورج يا چاند گهن كي نماز ميں مسبوق كا حكم
چاند يا سورج گهن كي نماز دو ركعت هے۔ هر ركعت ميں دو ركوع اور دو سجدے هوتے هيں۔ ركعت پانے كے لئے پهلے ركوع كا ملنا ضروري هے۔ اگر كسي كو دوسرا ركوع ملے, تو اس سے وه ركعت فوت هوگئي۔
شيخ صالح المنجد فرماتے هيں: "اگر كوئي ركوع ثاني ميں ملے, تو اس سے وه ركعت فوت هو گئي۔ لهذا اسے اس كا اتمام دو قراءت دو ركوع اور دو سجدوں سے كرنا هوگا" (موقع الإسلام سؤال وجواب سؤال)
تيرهواں مسئله
مسبوق كے سجدۀ سهو كے حالات اور ان كے احكام
جب مصلي كو يا تو سهو ونسيان واقع هو جائے۔ يا كوئي كمي يا زيادتي هو جائے۔ تو اس خلل كے جبر كے لئے بعض حالات ميں سلام پھيرنے سے پهلے, اور بعض حالات ميں سلام پھيرنے كے بعد دو سجدے كئے جاتےهيں۔ جنھيں سجدۀ سهو كها جاتا هے۔ چوں كه يه دو سجدے حالات كے اعتبار سے هوتے هيں۔ اس لئے تنوع حالات كے اعتبار سے اس كے مسائل بھي متنوع هيں۔ يهاں مسبوق كے چند حالات اور احكام كا ذكر هے۔
· اگر مسبوق سے امام كے سلام پھيرنے كے بعد سجدۀ سهو كا موجب واقع هو, تو وه چوں كه منفرد كے حكم ميں هے۔ اس لئے وه اپنے اعتبار سے اگر قبلي هيں تو سلام پھيرنے سے قبل, اور بعدي هيں تو سلام پھيرنے كے بعد سجدۀ سهو كرے گا۔
· اگر مسبوق كے ملنے كے بعد امام سے سجدۀ سهو كے موجب كا ارتكاب هوا هے۔ اور وه سلام سے پهلے سجده كرتا هے۔ تو وه امام كے ساتھ سجدۀ سهو كرے گا۔ نيز اتمام كے بعد سلام پھيرنے سے پهلے اس سجدۀ سهو كا اعاده كرےگا۔ كيوں كه يه اس كا مقام هے۔ اگر امام سلام پھيرنے كے بعد سجدۀ سهو كرتا هے۔ تو مسبوق بغير سجدۀ سهو كئے اپني نماز جاري ركھےگا۔ اور اتمام كے بعد سلام پھيرےگا۔ اس كے بعد سجدۀ سهو كرےگا۔
· اگر امام سے سجدۀ سهو كے موجب كا ارتكاب مسبوق كے ملنے پهلے هوا هے۔ اور وه سلام پھيرنے سے پهلے سجدۀ سهو كر رها هے۔ تو امام كي متابعت ميں مسبوق پر بھي سجدۀ سهو كرنا واجب هے۔ جب كه اتمام كے بعد اس كا اعاده ضروري نهيں هے۔ اور اگر امام سلام پھيرنے كے بعد سجدۀ سهو كرتا هے٬ تو مسبوق پر كچھ بھي واجب نهيں هے۔
· مسبوق كي ايك ركعت فوت هوئي٬ اور امام سے سهوا ايك ركعت كا اضافه هو گيا۔ تو كيا مسبوق اس اضافي ركعت كو شمار كرتے هوئے امام كے ساتھ سلام پھير دےگا۔ يا اس ركعت كا اعتبار نهيں كرےگا؟
اگر امام نے سهوا ايك ركعت زياده پڑھ لي٬ تو بعض علماء كے نزديك مسبوق كے لئےاس كا اعتبار هوگا۔ كيوں كه گرچه امام نے سهوا ايك ركعت كا اضافه كيا هو٬ تاهم جان بوجھ كر مسبوق كا ايك ركعت بڑھا لينا درست نهيں هے۔ سهو تو امام سے هوا هے٬ نه كه مسبوق سے۔ مسبوق اگر عمدا ايك ركعت بڑھا لے۔ تو اس سے اس كي نماز هي باطل هونے كا موجب هے۔ (مجموع فتاوى ابن عثيمين)
جب كه ديگر علماء اس اضافي ركعت كو مسبوق كے لئے اعتبار نهيں كرتے هيں۔ كيوں كه ان كے مطابق وه اضافي ركعت امام كي غلطيوں كا نتيجه هے۔ لهذا اس كا اعتبار نهيں هونا چاهئے۔ (مجموع فتاوى إبن باز).
· اگر امام نے سهوا نماز مكمل هونے سے پهلے سلام پھير ديا۔ اور مسبوق اتمام كے لئے كھڑا هو گيا۔ تو اس پر واپس لوٹ كر امام كي متابعه كرنا ضروري هے۔ كيوں كه اس پر امام كا نماز سے فارغ نه هونا ثابت هو گيا۔
خاتمه
مسبوق كے مذكوره مسائل سے پته چلتا هے۔ كه اس ضمن ميں مختلف ومتنوع مسائل هيں۔ جو حالات كے اعتبار سے پيش آتے رهتے هيں۔ اس لئے مومن كو چاهئے كه ان مسائل كو سيكھنے اور جاننے كي كوشش كرے۔ تاكه نماز جيسي اهم ترين عبادت ميں خلل نه ره جائے۔ يه چند مسائل هيں٬ جو عام طور پر پيش آتے هيں۔ جن كا يهاں اختصار كے ساتھ بيان هوا هے۔ مزيد مسائل اور ان كي تفصيلات كے لئے مؤلفات وفتاوى كي جانب مراجعه فرمائيں۔
اسي طرح مومن كو وقت پر مسجد پهونچنے٬ اور صف اول ميں جگه لينے كا حريص هونا چاهئے۔ كيوں كه ان كي بهت ساري فضيلتيں كتاب وسنت ميں بيان كي گئي هيں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين...
وصلى الله وسلم وبارك وأنعم علي نبينا محمد وعلي آله وصحبه أجمعين.
از رشحات قلم
عبد الله الكافي المحمدي
داعيه ومترجم شعبۀ جاليات دعوه سينٹر محافظه تيماء
وزارت برائے اسلامي امور واوقاف سعودي عرب
بتاريخ: 06 شعبان 1435 ھ موافق: 04 جون 2014ء بروز بدھ
بوقت: شب ايك بج كر انتيس منٹ٬ محافظه تيماء