مرحبا اے ماہ رمضاں مرحبا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہدیہ دعویہ
منجانب شعبۀ ديني دعوت وتحفظ برائے غیر عرب

زیر اہتمام
مكتب تعاوني برائے دعوت وارشاد وديني دعوت وتحفظ برائے غير عرب محافظه تيماء


رمضان کا استقبال کیسے کریں؟


عبد الله الكافي بن غريب الله المحمدي
خریج کلیۃ الحدیث الشریف والدراسات الإسلامیۃ بالجامعۃ الإسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ
داعیه ومترجم شعبۀ ديني دعوت وتحفظ برائے غیر عرب تيماء سعودي عرب

مكتب تعاوني برائے دعوت وارشاد وديني دعوت وتحفظ برائے غير عرب محافظه تيماء
پوسٹ بكس نمبر  ۱۹۵  منطقه تبوک  ٹیلیفون نمبر  0144631095  فاکس نمبر  0144632492 سعودي عرب





مرحبا  اے  ماہ رمضاں مرحبا
مقدمہ
خالق کون ومکاں نے امت اسلامیہ کو بہت سے ایسے دن عطا کئے ہیں، جو ان کے قلب و ایمان کو ترو تازہ کریں، چھلکتے ایمانی جذبات کو حرکت میں لائیں،طاعت میں اضافہ ہو اور معصیت پر پابندی لگے، وحدت و یکجہتی اوربھائی چارگی کو فروغ ملے ، طاعت پر نفس کی روحانی تربیت ہو،بے راہ رووں کو توبہ کا اور صالحین کو زیادتی حسنات کا موقع نصیب ہو، ایمان واہل ایمان نکھر جائیں اور بندہ مومن مصیقل ہو جائے۔یہ وہ ایام ہیں جنھیں اقوام عالم مناسبت ، عید، تہوار یامبارک گھڑیوں کا نام دیتی ہے۔

ماہ رمضان کے فضائل
انھیں جلیل القدر دنوں میں سے ایک عظیم مناسبت ماہ رمضان المبارک ہے۔ اس ماہ مبارک میں قرآن کریم نازل ہوا ۔ الله تعالے نے فرمايا: ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ  [البقر: 185] ترجمه معاني: ماہ رمضان وہ ہے, جس ميں قرآن اتارا گيا,  جو لوگوں کو ہدايت کرنے والا ہے۔ اور جس ميں ہدايت کي اور حق وباطل کي تميز کي نشانياں ہيں۔
حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ زبور توراة  اور انجيل بھي اسي مقدس مہينے ميں نازل ہوئے۔ [ تفسير ابن کثير وروي الإمام احمد عن واثلة ابن الأسقع رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم انظر الفتح الرباني]
اس مہینے میں نیکیوں کی قیمت بڑھ جاتی، گناہ بخشوانا آسان ہو جاتا، معصیت کی نکیل کھینچ لی جاتی، جنت کے دروازے کھل جاتے، جہنم کے دروازے لاک ہو جاتے، شیاطین نظر بند کرلئے جاتے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ایمان واحتساب (ثواب کی امید)کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا، اس کے تمام گذرے گناہ معاف کر دیئے گئے (بخاری )
اور جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا، اس کے تمام گذرے گناہ مٹ گئے۔ (بخاری ومسلم)
در حقیقت جس میں شیطان کے پنجوں سے بچتے ہوئے جنت کا راستہ آسان ہو جائے۔ ڈھیر سارے امتیازات سے مزین رب کائنات کا عظیم تحفہ ہو۔ اس طرح کا پیارا مہمان اور محبوب مہینہ آیا چاہتا ہے۔یہ ہمارے لئے بے انتہا عظیم بشارت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  جب رمضان کا مہینہ آ جاتا ہے، توجنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے اورشیاطین قید کر لیئے جاتے ہیں (بخاری )
سبحان اللہ !کیا ہی عظیم المرتبۃ مہینہ ہے جس میں تہجد وتراویح نصیب ہو، ذکرو تسبیح سے دل باغ باغ ہو، جود وسخاء کا سماں ہو، اذکار وتلاوت میسرہو، آہ وبکاء گریہ وزاری کی صدا ہو اور دعاؤں میں الحاح ہو۔رب کی بخششیں عام ہوں،گناہ مٹائے جائیں، درجات بلندکیئے جائیں، اس بابرکت مہینے سے مستفیض ہونے کے لئے روحیں بے قرار ہیں۔ برا ہو اس آدمی کا جس نے اپنی زندگی میں رمضان کا مبارک مہینہ پایا، پھر بھی جنت میں داخل نہ ہو سکا۔

ماہ رمضان کی ضرورت
انسانی طبیعت طویل مسافت کے بعد اسٹیشن کا تقاضہ کرتی ہیں، جہاں اپنے زاد راہ اور نفس کو از سر نو ترتیب دے سکیں، گیارہ مہینوں کے تھکا دینے والے سفر کے بعدامت کو رمضان المبارک جیسے مہینے کی بہر حال ضرورت تھی۔جہاں پر وہ اپنے ایمان کا جائزہ، باطن کی اصلاح، ایمانی زندگی کی ترتیب اورآخرت کی زادراہ کواز سر نو سنوار سکتی۔ کیوں کہ آخرت کی منزل بڑی طویل مسافت ہے۔ جس کے زادراہ کے بارے میں سوچ کرحضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابی اپنی موت کے وقت ہچکیاں لے لے کر رو رہے تھے۔رمضان تجدید ایمان کا مدرسہ ہے، گناہ بخشوانے کا محکمہ ہے، درجات بلند کرانے کی آفس ہے، نفس کے اصلاح کی فیکٹری ہے،دنیا وآخرت کی سواری کا ورک شاپ ہے، ناروا شہوات وخواہشات پر کنٹرول کا پولس ہیڈکوارٹر ہے،آخرت کی سفر کے لئے زادراہ ترتیب دینے کا اسٹیشن ہے،روحانی تربیت کی آماجگاہ ہے اور تمام مہینوں کا سردار ہے ۔
ماہ رمضان کا استقبال
اللہ کا شکر
ہر مسلمان کے لئے اللہ تعالے کی طرف سے رمضان کامہینہ ایک گراں قدر تحفہ اور عظیم نعمت ہے، زندگی کے نشیب وفراز سے گذارتے ہوئے رب کائنات نے ہمیں رمضان کے دہانے تک پہونچایا ہے ، اس لئے ہمیں سب سے پہلے اس رب کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اورمحض زبانی شکر کافی نہیں ہے، بلکہ اپنے اعمال وکردار سے بھی اس کااظہار کریں۔شکر نعمت میں پائداری اور زیادتی کے اسباب میں سے ہے۔ جب کہ نا شکری زوال نعمت کے ساتھ ساتھ عذاب الہی کو للکارتا ہے ۔
اللہ تعالے فرماتا ہے : ﴿ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ( سوره ابراهيم: 7) ترجمه معاني: اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاه کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے,  تو بیشک میں تمہیں زیاده دوں گا۔  اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔

توبہ نصوح
مثل مشہور ہے ، صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو وہ بھولا نہیں۔ پچھلے گیارہ مہینوں میں ہم نے جو کچھ کیا ، رب کی اس شفقت کو دیکھ کر اگر ہم اس کی طرف رجوع کر لیں، تو رب کا دروازہ ہمیں کھلا ملے گا۔ اس کا اعلان عام ہے : ﴿  قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚإِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ  ترجمه معاني: کہہ دو (میری جانب سے) کہ: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے, تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔
لہذا ہمیں توبہ واستغفار اور انابت ورجوع میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ رمضان کی آمد سے قبل اپنے گناہوں سے پاک وصاف ہوجانا ہی اس کا صحیح استقبال ہے۔ہمیں اپنے ان دوست واحباب اور خویش واقرباء سے سبق لینا چاہئے، جنھوں نے سوچ رکھا تھا کہ آئندہ رمضان میں توبہ تائب ہو جائیں گے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ رمضان کا نیا چاند دیکھتے ، ہم نے اپنے ہاتھوں سے انھیں سپرد خاک کر دیا۔لہذا ہمیں اپنی پہلی فرصت میں توبہ نصوح کرنا چاہئے۔پھر جب رمضان آجائے تو جی بھر کے جنت حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔
واضح رہے کہ توبہ نصوح کے لئے چار اہم شرطیں ہیں
(1)              سب سے پهلےمعصیت کاترک كرنا۔
(2)            گذشتہ گناہوں پر شرم وندامت كا احساس هونا۔
(3)           آئندہ کبھی ان گناهوں كو نہ دہرانے کا  دل سےعزم  كرنا۔
(4)          اگر حقوق سے متعلق ہو تو صاحب حق کو واپسی ۔

التزام بالدین
توبہ تائب ہو کر شریعت کو اپنا شعار بنا لیں۔کیوں کہ شریعت ہی ایک مومن کی روح ہے۔ جس کا التزام کئے بغیر انسان کی انسانیت وآدمیت اور مرؤت مر جاتی ہے۔ پھر اس کی نظر میں اچھائی برائی یا نیکی وبدی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ہے، اور نہ ہی یہ باتیں اس کے دل میں اترتی ہیں۔

اذکار وادعیہ
خود کو مسنون ذکرو اذکار کا عادی بنائیں، اور زیادہ سے زیادہ مسنون وماثور دعاؤں کا اہتمام کریں۔ بالخصوص رمضان کے موسم بہار سے جھولی بھر کے فصل کی توفیق مانگیں۔کیوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ رمضان ہمارے نصیب میں ہے یا نہیں ۔ عموما بعض سلف صالحین کی دعاء اس طرح ہوا کرتی تھی: (اللهم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا اللهم رمضان) یعنی اے اللہ ہمیں رجب وشعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور رمضان تک ہمیں بہنچا۔
ایک دوسرے کو تہنیت
ان دعائیہ جملوں کے ذریعہ پیغام تہنیت یا مبارک بادی دینا ، جودر اصل قبول اعمال اور خیرو برکت والے مہینے میں توفیق کی دعاء ہوتی ہے۔ حضرت ابو امامۃ الباھلی رضی اللہ عنہ اور دیگر سلف صالحین اکثر نیک مناسبتوں میں ( تقبل الله منا ومنک)کہا کرتے تھے(الجوہر النقی)  اگر اس طرح کے دعائیہ جملوں کا تبادلہ ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے۔
ماه رمضان كے غير مرغوب اعمال
استقبال کی نیت سے صیام وقیام 
رمضان کے استقبال کے لئے کسی معروف یا غیر معروف عبادت یا رسم ورواج ایجاد کرنا مناسب نہیں ہے۔اسی طرح رمضان سے ایک دو روز قبل رمضان کے استقبال کی نیت سے مخصوص صیام وقیام کا اہتمام کرنا بھی درست نہیں۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے : رمضان سے ایک دو دن پہلے روزے نہ رکھا کرو (بخاری ومسلم)

غیر معروف اوراد واذکار 
اسی طرح شریعت کی نظر میں غیر معروف اوراد واذکار سے اجتناب کیا جائے۔ اور مسنون ذکرو دعاء پر اکتفا کیا جائے۔ یہی ثواب کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ غیر معروف کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل يا تو سرے سے ثابت هي نه هو۔ اگرچہ دیکھنے سننے میں بہتر ہو ۔ يا اصل عمل تو ثابت هو, مگران چھ چیزوں میں سے کسی ایک یا زیادہ کی مخالفت کی گئی ہو، جو کسي ثابت شده عمل كو بدعت بنانےکی پہچان میں علماء اصولیین کے اہم ترین قواعد ہیں۔ گرچه وه عمل نماز وتلاوت ہی کیوں نہ ہو۔ اور وه چھ اصول يه هيں:
(۱)  بغیر دلیل کے زمانے کی تحدید نہ ہو  ۔
(۲)  بغیر دلیل کے اجتماعیت نہ ہو ۔
(۳)  بغیر دلیل کے عدد مخصوص نہ ہوں ۔
(۴)  بغیر دلیل کے جگہ متعین نہ ہو ۔
(۵)  بغیر دلیل کے وقت متعین نہ ہو ۔
(۶) ثابت شدہ مقدار سے کم یا زیادہ نہ ہو، نہ ہی ثابت شدہ کیفیت ونوعیت کے خلاف نہ ہو۔
اگر ان میں سے کسی ایک یا زیادہ کی مخالفت ہوگئی تو خطرہ ہے, کہ وہ عمل بدعت نہ بن جائے۔ اللہ تعالے ہم سبھوں کو اس سے محفوظ رکھے۔  آمین 
پھلجھڑیاں اورپٹاخے
یہ ایک غیر معروف کام ہونے کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کی مشابہت بھی ہے۔کیوں کہ یہود ونصاری اور مجوس وہنود وغیرہ اپنے تہواروں میں پھلجھڑیوں اور پٹاخوں کے ذریعہ اظہار مسرت کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یہود ونصاری کی مخالفت کرو ( بخاری)
 نیز فرمایا : جو شخص کسی قوم کی مشابہت کرے گا وہ انھیں میں سے ہے (ابوداوود)

ناچ باجے اورمحفلوں کا انعقاد
ناچ باجا فاسقوں کا کام ہے، جبکہ اللہ تعالے کی نعمتوں پر خوشیاں شکر کے طور پر منانا چاہئے۔ اور شکر عبادت اور اظہار عبودیت سے ہوتا ہے، ناچ باجے اور ڈھول تماشے سے نہیں۔ نیز یہ بھی غیر مسلموں کی مشابہت ہے۔ اسی طرح غیر ثابت محفلیں منعقد کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ کیوں کہ جس اجتماعیت کی دلیل کتاب وسنت میں نہ ہو، وہ سنت کو بدعت بنا دیتی ہے۔

غیر اسلامی طور طریقے سے اظہار مسرت
اسی طرح اظہار مسرت کے لئے ہر اس طریقے سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے غیر مسلموں کی مشابہت ہو، مثلا احباب میں کارڈ کا تبادلہ یا مخصوص حلوے کے پیکٹ بھیجنا وغیرہ۔  ان چیزوں سے ہم بجائے رمضان میں نیکیاں حاصل کرنے کے گنہ گار ہو سکتے ہیں۔اللہ تعالے ہماری حفاظت فرمائے۔
اس مہینے کے بہترین اعمال
صیام
یوں تو اس مبارک مہینے میں ہر قسم کے نیک اعمال کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ مگر چند امور ایسے ہیں، جن کا اہتمام خود رسو اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ان میں سب سے اہم ترین بلکہ اسلام کا چوتھارکن رمضان کے پورے مہینے کے دنوں میں جملہ مفطرات سے اجتناب کرناہے۔ جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا، اس کے تمام گذرے گناہ معاف کردیئے گئے (متفق علیہ)
§       روزے داروں کے لئے جنت کے آٹھ دروازوں میں سے ایک دروازہ [باب الریان] روزے داروں کے لئے خاص ہوگا۔ جن سے روزے داروں کے علاوہ کوئی دوسرا داخل نہ ہو سکے گا۔ جب روزہ دار داخل ہو جائیں گے، تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا (البخاری)
§       روزے دار کے منه سے نکلنے والی بو اللہ تعالی کے نزدیک مشک عنبر سے زیادہ بہتر ہے (البخاری)
§       ابن آدم کا ہر عمل اس کے اپنے لئے ہوتا ہے، سوائے روزہ کے۔ روزہ محض اللہ کے لئے ہوتا ہے، اور اس کا بدلہ وہی دے گا (البخاری)
§       روزہ وہ عمل ہے، جس میں ریا کاری نہیں آتی (البخاری)
§       روزہ کا بدلہ سوائے جنت کے کوئی چیز ادا نہیں کر سکتی (متفق علیہ)

قیام ليل يا تراويح
قیام اللیل ہی نماز تراویح ہے۔ عام دنوں ميں اسے قيام ليل يا تهجد كهتے هيں۔ جب كه رمضان ميں عام طور پر تراويح سے مشهور هے۔ اس كي بڑي فضيلتيں آئي هيں۔ اسي لئے بلا اختلاف زمان ومكان امت كے درميان اس پر عمل رها هے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمايا: جس شخص نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کا قیام کیا، اس کے تمام گذرے گناہ معاف کر دیئے گئے (البخاری)
 رسول اللہ ﷺ نے تین روزباجماعت اس کا اہتمام کیاتھا، پھر کہیں اللہ کو پسند آ جائے اور امت پر اسے فرض نہ کر دے، اس ڈر سے آپ ﷺ نے جماعت کرانا ترک کردیا (متفق علیہ)
دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جماعت کی سنت کو جاری کیا۔ کیوں کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد اس کے فرض ہونے کا ڈر ختم ہوگیا۔



تلاوت قرآن كريم
اس مبارک مہینے میں اللہ کے رسول ﷺ کثرت سے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اور حضرت جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ دور كيا کرتے۔ کبھی ان سے سنتے، اور کبھی ان کو سناتے۔ جس سال آپ ﷺ نے وصال فرمایا، اس سال کے رمضان میں آپ ﷺ نے حضرت جبريل عليه السلام کے ساتھ دو بار دور فرمایا (البخاری)

صدقہ وخیرات
رسول اللہ ﷺ یوں تو ہمیشہ صدقہ وخیرات کیا کرتے تھے۔ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے۔ خاص كر  رمضان میں جس طرح کھلی ہوا روکے نہیں رکتی، اسی طرح آپ کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں رکتی تھی۔ هاتھ آتے ہی فورا صدقہ کر دیتے (البخاری)

اعتکاف
رمضان میں ایک شب ہے جو ہزارمہینے کی راتوں سے بہتر ہے ۔ رات بھر الله كے فرشتے اور حضرت جبريل عليه السلام نازل هوتے رهتے هيں۔ الله تعالے نے فرمايا: ﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ* تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ (سورۀ قدر: 3)  ترجمه معاني: شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (میں ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں۔
اس رات کی تحری اور جستجو میں خود کو دنیا سے کنارہ کش کرلینا۔ اور مخصوص ایام کے لئے کسی بھی مسجد میں گوشہ نشین ہو جانا۔البتہ اگر جامع مسجد ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ اس دوران ذکر وتسبیح اور تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، اور نوافل وغیرہ بکثرت پڑھنااعتکاف ہے۔ کچھ علماء نے اسے فرض کفایہ کہا ہے۔ یعنی اگر کچھ لوگ اعتکاف میں بیٹھ جائیں تو کافی ہے، اگر کوئی بھی نہ بیٹھا تو سب کے سب گنہ گار ہوں گے ۔ مگر صحیح قول کے مطابق اعتکاف سنت ہے (فتح الباری(
صدقۀ فطر
ہر مرد عورت بوڑھے جوان یا نو مولود ہی کیوں نہ ہو، سب کی طرف سے واجب ہے۔اسے روپیہ پیسہ یا نقدی کے طور پر ادا کرنا صحیح نہیں ہے۔ بلکہ کھانے پینے کی چیزوں میں سے ہر ایک نفس کے بدلے ایک صاع ادا کیا جائے گا۔ اگر کسی کے پاس محض پیسہ ہو، تو وہ اناج خرید کر ادا کرے۔اس کے ادا کرنے کا وقت عید کی نماز کے لئے نکلنے تک ہے ( البخاری) اس مہینے کے اہتمام ، بالخصوص صیام وقیام میں جو تقصیر ہو جائے، یہ صدقہ اس کمی کو پوری کر تاہے۔

موجودہ حالات اور رمضان کا پیغام
اللہ تعالے کی مشئت سے امت اسلامیہ اس وقت بے انتہاء خطیر مرحلے سے گذر رہی ہے۔ عالم اسلام میں ہنگامہ ہے، کہیں مسلمان جنگ وجدال سے دو چار ہیں ، کہیں عزت و ناموس پر سوگ منا رہے ہیں ۔ کہیں بھوک اور پیاس کے صدمے اٹھا رہے ہیں، کہیں کھلے آسمان کے نیچے شب و روز بتانے پر مجبور ہیں اور کہیں خوف و ہراس کی مشقتیں جھیل رہے ہیں۔
غرضیکہ پوری امت فتنوں کے لپیٹ میں ہے، ہر مسلمان متاثر ہے۔ ان حالات میں ماہ رمضان المبارک ہم سے روشن مستقبل کے لئے ایک سوچا سمجھالائحہ عمل ترتیب دینے کا تقاضہ کرتا ہے۔ جو اتحاد والتزام كي بنياد پر قائم هو۔ ایسا لائحہ عمل جو دین و دنیا کے مابین صحیح ترین رابط ہو۔  اور بلا شبہ اس طرح کا لائحہ عمل شریعت کی پاسداری ہے۔جس میں دینی سیاسی اقتصادی اخلاقی معاشرتی اور دیگر تمام المیوں کا حل موجود ہے۔
رب کو راضی کرنا
موجودہ زبوں حالی میں رمضان کا پیغام یہ ہے کہ مسلمان اپنے رب سے جڑ جائے، جس طرح سے ہو سکے وہ خود سے اسے راضی کر لے۔ وہ رب کی مملکت سے باہر نہیں بھاگ سکتا، الله تعالے نے تنبيه فرمائي: ﴿ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ [ سورۀ رحمن: 33] ترجمه معاني: اے گروه جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے۔  تو نکل بھاگو! بغیر غلبہ اور طاقت کے تم نہیں نکل سکتے۔
 اے جنو اور انسانو ! اگر تم زمین وآسمان کے سرحد سے باہر نکل سکتے ہو تو جاؤ، لیکن یاد رکھو جہاں تمہارے قدم ٹکیں گے, وہ رب کی مملکت وبادشاہت ہی ہوگی۔ لہذا  جب تک تم اس سے سمجھوتہ نہیں کر لیتے ، زمین وآسمان تم پر تنگ ہوتے چلے جائيں گے۔
اور اگر اس سے ناطہ جوڑ لو ، تو ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ [سورۀ محمد: 7]  ترجمه معاني: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے, تو وه تمہاری مدد کرے گا۔  اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
اور جب الله رب العزت تمہاری مدد کرے گا، اور تمہیں ثابت قدم کردے گا۔ تو  پھر تمہیں دنیا کی کوئی طاقت ہلا نہیں سکتی۔

اسلامی تشخص کو عام کرنا
آج کا مسلمان سفرو حضر میں خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے جھجکتا , شرماتا  اور  ڈرتا ہے۔  یہ بجائے خود ایک عذاب ہے۔ مسلمان کو اپنے اصل کی جانب رجوع کرنا چاہئے۔ بھلائے ہوئے سبق کو دہرانا چاہئے۔ اسکی اخلاقی تعلیم کو رب کا تزکیہ حاصل ہے۔ اس کي تہذیب کو دنیا کی تہذیبیں چھو بھي نہیں سکتی۔ اس کی فراست کو بڑے بڑے فلاسفہ بھي نہیں پا سکتے۔ اس طرح کی دولت ہوتے ہوئے وه خود کو احساس کمتری میں کیوں مبتلا کرے ؟ ! 
ہم اگر اپنے اصل کی جانب لوٹ آئیں, تو  ان شاء الله  زمانہ وہ  دور واپس لانے پر مجبور ہوگا، جس ميں ایک مسلمان کو دیکھ کر کئی كئي لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو جایا کرتے تھے۔
رمضان کا مہینہ یہ پیغام لا رہا ہے ، کہ اسلامی تعلیمات پر پہلے خود کاربند ہو جاؤ ۔ پھر اسے دنیا میں عام کرو۔ لوگوں نے اسلام کے چہرے کو مسخ کردیاہے۔ جسکی وجہ سے لوگ اسلام سے ڈرتے اور گھبراتے ہیں۔ تمهارا فریضہ ہے کہ اس کے چہرے سے گردوغبار كو ہٹاؤ۔ اور اس کی صحیح شکل دنیا کے سامنے پیش کرو۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے بڑے سے بڑا دشمن بھی اسے گلے لگانے کے لئے بے قرار ہوجائے گا۔ لهذا  ہر آدمی اپنی سطح پر دین کو عام کرے ۔  مدرس درس وتدریس کے دوران، جج اور وکیل اپنے چمبروں پر، کمانڈر اپنے محاذ پر، امام اپنے خطبے میں اور وزیر اعظم پارلیمنٹ میں، ہر شخص اپنے دنياوي فرائض کی ادائیگی کے دوران اسلامی تشخص کو برقرار رکھے۔

مسلمانان عالم کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کے لئے دعائیں
اللہ تعالے کا فرمان ہے : ﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ (سورۀ حجرات: 10) ترجمه معاني: (یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : مسلمان ایک عمارت کی طرح سے ہیں، جس میں ایک سے دوسری اینٹ جڑتی چلی جاتی ہے (بخاری)
نیز فرمایا : مومن ایک جسم کی طرح سے ہیں، جب کسی ایک عضو کو تکلیف لاحق ہو ، توپورا بدن تکلیف سے تڑپ اٹھتا ہے (بخاری)
لہذا جب ہم کسی مسلمان بھائی کی پریشانی سن رہے ہوں, تو ہمیں اس كے ساتھ اظہار یکجہتی اور همدردي وغمگساري کرني چاہئے۔  اور جس قدر ہو سکے اس کے سکھ دکھ میں ہمیں اپنی وسعت کے مطابق اس کے ساتھ ہونا چاہئے۔
بالخصوص رمضان کے مبارک موقع پر اپنے بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہئے۔ اور اپنی دعاؤں میں انھیں شریک کرنا چاہئے۔ بلكه پورے عالم اسلام كے لئے هميں دعائيں كرني چاهئے۔
رمضان کے لئے کمر بستہ ہو جائیں
بد نصیب ہے وہ شخص جو رمضان کو پائے,  اور جنت نہ کما سکے۔ رسول اللہ ﷺ کا حال یہ تھا، کہ: ( إذا جاء رمضان شد مئزره وأيقظ أهله)  جب رمضان آ جاتا تو کمر بستہ ہو جاتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے ( بخاری)
رب نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دئے، اس کے با وجود آپ کا یہ عالم تھا۔ رمضان کی راتوں میں آپ ﷺ امہات المؤمنین کو بھی جگاتے، اور خود بھی شب بیداری فرماتے۔ تو ہمیں کس قدر مغفرت حاصل كرنے كي کوشش کرنی چاہئے؟!
آپ ﷺ نے فرمایا: ( رُبَّ کاسيةٍ فی الدنيا عارية يوم القيامة) دنیا میں عارضی زیب وزینت سے آرائش, پہنی اوڑھی ڈھکی چھپی کئی عورتیں قیامت کے دن عمل کے اعتبار سے بالکل بے لباس برہنہ ہوں گی (البخاري)
رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں اعتکاف فرمايا كرتے تھے۔ جب كه آپ ﷺ نے اپنے آخری سال دو عشرہ  كا اعتکاف فرمایا (بخاری ومسلم)
امہات المؤمنین بھی مسجد میں خیمہ نصب کرکے اعتکاف کیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح سلف صالحین رمضان کو غنیمت جان کر اسے آخرت کے لئے استعمال کرتے تھے۔ بلا شبہ یہ ہمارے لئے نیکیاں کمانے کا ایک سنہرا موسم ہے ۔ ہر فصل کے لئے ایک موسم ہوتا ہے، اور نیکیوں کی فصل کا یہ موسم بهار ہے۔ اللہ تعالے ہمیں صیام وقیام کرنے والوں میں سے بنائے، اور رمضان ختم ہونے سے پہلے جہنم سے نجات پانے والوں میں سے کر دے۔  آمین يا رب
از رشحات قلم
عبد الله الكافي المحمدي
داعيه ومترجم شعبۀ جاليات دعوه سينٹر محافظه تيماء
وزارت برائے اسلامي امور واوقاف سعودي عرب

بتاريخ:  ۱۷/ شعبان ۱۴۲۳ ھ موافق:  23  اكتوبر  2002ء    بروز سوموار