ماه رمضان المبارك کے شب وروز

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہدیہ دعویہ
منجانب شعبۀ ديني دعوت وتحفظ برائے غیر عرب

زیر اہتمام
مكتب تعاوني برائے دعوت وارشاد وديني دعوت وتحفظ برائے غير عرب محافظه تيماء


ماه رمضان المبارك كے شب وروز


عبد الله الكافي بن غريب الله المحمدي
خریج کلیۃ الحدیث الشریف والدراسات الإسلامیۃ بالجامعۃ الإسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ
داعیه ومترجم شعبۀ ديني دعوت وتحفظ برائے غیر عرب تيماء سعودي عرب

مكتب تعاوني برائے دعوت وارشاد وديني دعوت وتحفظ برائے غير عرب محافظه تيماء
پوسٹ بكس نمبر  ۱۹۵  منطقه تبوک  ٹیلیفون نمبر  0144631095  فاکس نمبر  0144632492 سعودي عرب






ماه رمضان المبارک کے شب وروز
ماہ رمضان کے فضائل وبرکات
سال کے بارہ مہینے ہیں،جو محرم سے شروع ہو کر ذو الحجہ میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ عربی سال کے مطابق ماہ رمضان المبارک نواں مہینہ ہے۔ اور بارہ مہینوں میں سب سے افضل ہے۔اسی مبارک مہینے میں قرآن حکیم کو لوح محفوظ سے سماوی دنیا پراتارا گیا۔ الله كا ارشاد هے: ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ  [البقر: 185] ترجمه معاني: ماہ رمضان وہ ہے, جس ميں قرآن اتارا گيا,  جو لوگوں کو ہدايت کرنے والا ہے۔ اور جس ميں ہدايت کي اور حق وباطل کي تميز کي نشانياں ہيں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زبور توراۃ اور انجیل بھی اسی مقدس مہینے میں نازل ہوئے [تفسير ابن کثير وروی الإمام احمد عن واثلة ابن الأسقع رضی الله عنه عن النبی صلى الله عليه وسلم انظر الفتح الربانی]
اسی مہینے میں لیلۃ القدر واقع ہوتی ہے۔  جو ہزار مہینوں کی راتوں سے افضل ہے۔ اس بابرکت مہینے میں بکثرت ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ الله تعالے نے فرمايا: ﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ* تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ (سورۀ قدر: 3)  ترجمه معاني: شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (میں ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل) اترتے ہیں۔
 نیکیوں کے راستے آسان ہو جاتے، مغفرت عام ہو جاتی، شیاطین قید کر لئے جاتے، جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ( إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنة وغلقت أبواب النار وصفدت الشياطين)  جب رمضان کا مہینہ آ جاتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے، جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے اور شیاطین قید کر لئے جاتے ہیں [متفق علیہ]
اور فرما یا: ( من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه )  جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے تمام گذرے گناہ معاف کر دئے گئے[متفق علیہ]
نیز فرمایا ( ومن قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه ) جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کا قیام کیا اس کے تمام گذرے گناہ معاف کر دئے گئے [متفق علیہ]
اور: (ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه) جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ لیلۃ القدر میں قیام کیا، اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف ہو گئے [متفق علیہ] غرضیکہ رمضان کا پورا مہینہ شب وروز ایک ایک لمحہ بابرکت ہے۔ 
واضح رہے کہ صحیح ابن خزیمہ ، شعب الایمان، مسند الحارث زوائدالہیثمی وغیرہ میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے جو روایت کی ہے کہ رمضان کاپہلا عشرہ نزول رحمت کا، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے ، تو اس کے جملہ طرق یا تو ضعیف ہیں یا منکر۔ اسی طرح مسند احمد المعجم الاوسط حلیۃ الاولیاء اور ابن عساکروغیرہ کی روایت میں جو دعاء: (اللهم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنا اللهم رمضان) منقول ہے، اس کی سند ضعیف ہے۔
ابن خزیمہ ، ابن حبان اور امام بخاری نے الادب المفرد میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔  کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے خلاف عادت منبر پر چڑھتے ہوئے تین بار آمین کہا، اور اس کا سبب آپ ﷺ نے یوں بیان فرمایا کہ جب میں نے منبر کے پہلے زینہ پر قدم رکھا, تو جبریل علیہ السلام نے کہا برا ہو اس آدمی کا جس نے اپنے والدین کو پایا, اور ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو سکا، تو میں نے کہا آمین۔ جب دوسرے زینہ پر قدم رکھا تو جبریل نے کہا برا ہو اس آدمی کا جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور جنت میں داخل نہ ہو سکا، میں نے کہا آمین۔ اور جب تیسرے زینہ پر قدم رکھا تو جبریل نے کہا برا ہو اس آدمی کا جس کے سامنے آپ ﷺ کا نام آئے اور وہ آپ ﷺ پر درود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین۔
اس واقعہ کو مالک بن الحویرث سے منذری اور ابن حبان نے ، کعب بن عجرہ سے منذری اور حاکم نے اور جابر بن سمرہ سے طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ نقل کیاہے۔مقام عبرت یہ ہے کہ بد دعاء کرنے والے افضل الملائکہ حضرت جبریل علیہ السلام ہیں، تو اس دعاء پر آمین کہنے والے افضل الخلائق محمد رسول اللہ ﷺ ، لہذا رمضان المبارک کے بیش بہا قیمتی اوقات کو ضائع کرنے والے متنبه ہو جائیں۔
ماہ رمضان المبارک کی حرمت
جس طرح مکہ اور مدینہ کی عظمت اور مقام کے سبب انھیں حرم قرار دیا گیاہے۔ اور حرم کے حدود متعین کر دیئے گئے ہیں۔ ان کی حرمت کو پامال کرنے والے پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے ۔ خواہ شکار کرنے کے سبب ہو یا درختوں کو کاٹنے کے سبب، یا کسی بھی طرح سے ان کی حرمت کو پامال کیا جائے، کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ رمضان المبارک کی عظمت اور مقام ومرتبت کے سبب اسے بھی حرم قرار دیا گیا ہے۔اور حرم کی حد بندی بھی کی گئی ہے:  ﴿ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ   ترجمه معاني:  تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاه دھاگے سے ظاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔
طلوع صبح صادق سے اس کی حرمت شروع ہوتی ہے، اور غروب آفتاب تک رہتی ہے۔ اس دوران کئی حلال اور جائز چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں۔حتی کہ جو روزہ توڑ دے اور وہ ا ہل اعذار میں سے نہ ہو، وہ بھی اس دوران ان چیزوں کے کھلے عام کرنے سے روکا جائے گا۔ یہی اس ماہ مبارک کی حرمت کا تقاضہ ہے۔ البتہ اگر اہل اعذار میں سے ہے، تو اسے شریعت نے اجازت دی ہے۔ 
رمضان کے بعض بہترین اعمال
رمضان کے پورے دنوں میں روزہ رکھنا۔ قیام اللیل یعنی تراویح کا اہتمام کرنا۔ اعتکاف میں بیٹھنا۔ لیلۃ القدر کی تلاش میں کوشاں رہنا۔روزے داروں کو افطار کرانا۔ صدقہ وخیرات کرنا۔ کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا۔ ذکر واذکارمیں ہمیشہ مشغول رہنا۔ بکثرت توبہ واستغفار کرنا۔ان کے علاوہ غیر رمضان میں عموما اور ماہ رمضان میں خصوصا تمام قسم کے کار خیر کو ملحوظ خاطر رکھنا۔ جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کرنا۔ مریضوں کی عیادت کرنا ۔ محتاجوں کی مدد کرنا۔ یتیموں بیواؤں ناداروں اوربے کسوں کو سہارا دینا وغیرہ۔ کیوں کہ اس مہینے میں ہر قسم کے نیک کاموں کی مزدوری کئی درجہ بڑھ جاتی ہے۔ بالخصوص اس مہینے میں گناہ اور اس کے ملحقات سے خود کو بچانے کی کوشش کرنابہترین عمل، اور ان میں ملوث ہو جانا بدترین عمل ہے۔ 

رؤیت ھلال کے احکام ومسائل
رمضان یا عید کا چاند دیکھنے کا حکم
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( الشهر هکذا وهکذا) مہینہ انتیس روز کا بھی ہوتا ہے، اور تیس روز کا بھی [متفق علیہ] یعنی اسلامی تقویم میں کوئی بھی مہینہ انتیس یا تیس سے کم یا زیادہ کا نہیں ہوتا۔اس لئے چاند کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند نظر آجائے تو صبح سے روزہ شروع کریں۔ اگر دوسرے محلہ والے یا دوسرے شہر والے معتبر شہادت کے ذریعہ ثابت کر دیں، تو اسے تسلیم کر لیا جائے گا۔ مگر اس شہر کی مسافت اتنی نہ ہو کہ مطلع میں فرق آ جائے۔اپنے مطلع کے اندر کی گواہی یا بنفس نفیس چاند دیکھ کر روزہ رکھنا ہی ضروری ہوگا۔ اگر چہ دوسرے مطلع کے شہر سے ایک دو دن آگے پیچھے ہی کیوں نہ ہو جائے ( صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته)  روزہ شروع کرو بھی چاند کو دیکھ کر، اور روزہ ختم بھی چاند کو دیکھ کر ہی کرو [متفق علیہ]
اگر انتیسویں شعبان کو نظر نہ آئے، اورمعتبر مسافت کے اندر کسی شہر سے کوئی معتبر گواہی بھی نہ ملے۔ تو شعبان کو تیس کا مہینہ شمار کر لیں۔ اور اس کے بعد چاند نظر آئے یا نہ آئے روزہ شروع کر دیں۔ کیوں کہ عربی سال کا مہینہ تیس سے زیادہ دنوں کا نہیں ہوتا ( فإن غم عليکم فأکملوا عدة شعبان ثلاثين ) اگر بدلی چھا جائے (اور چاند نظر نہ آئے، کوئی گواہی بھی نہ ملے، اور چاند آجانے کا شک بھی ہو ) تو شعبان کے تیس دن مکمل کر لو [متفق علیہ]
اور اگر انتیسویں شعبان کو غیر معتبر خبر ملے ، بدلی کے سبب چاند نہ آنے کا خدشہ ہو، یا کسی بھی طرح سے شک ہو جائے۔ تو شک کے دن روزہ نہ رکھیں ۔
صلہ بن زفر کہتے ہیں کہ ہم لوگ شک کے دن حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک (کھانے کے لئے تیار شدہ) بکری پیش کی گئی۔ تو ہم میں سے بعض لوگ دور ہٹ گئے، یہ دیکھ کرحضرت عمار نے کہا کہ جس نے آج روزہ رکھا ہے، اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے (ابن ماجہ وصححہ الألبانی ) یہ شریعت کا حکیمانہ فیصلہ ہے ۔ تاکہ امت کو افرا تفری سے محفوظ رکھا جا سکے، اور ایک ایک علاقے میں کئی کئی عیدیں نہ ہوا کریں۔
مسئلہ (۱) : اسلامی شعائر میں فلکی حساب اور کیلنڈر وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ بلکہ صرف رؤیت ہلال ہی معتبر ہے۔خواہ تقویم وکیلنڈر کے موافق ہو جائے یا مخالف۔اس ضمن کی حدیثیں واضح اور بالکل صریح ہیں۔
مسئلہ (۲) : واضح رہے کہ ہر کسی کو چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان نہیں کرنا چاہئے۔بلکہ عوام میں سے اگر کسی نے چاند دیکھ لیا ہو تو اسے خواص کے پاس جا کر گواہی دینی چاہئے، اور اعلان خود دیکھ کر ہو یا گواہی کی بنیاد پر ہو خواص ہی کو کرنا چاہئے۔خواص سے مراد وہ اہل علم ہیں، جن کی باتیں عام مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہیں۔
مسئلہ (۳) : اسی طرح اگر کسی کو چاند نظر آیا مگر وہ گواہی نہ دے سکا، اور دوسرے لوگوں میں کسی طرح سے چاند ثابت نہ ہو سکا،تو عامۃ المسلمین میں چاند ثابت ہوئے بغیر انفرادی طور پرچاند دیکھ کر روزہ شروع کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔بلکہ جماعۃ المسلمین کے ساتھ ہی روزہ شروع کرنا ضروری ہوگا۔ورنہ امت کا اتحاد اور اجتماعیت خطرے میں پڑ جائے گی۔
مسئلہ (۴) : جس طرح رؤیت ہلال کا مسئلہ اواخر شعبان اور ابتداء رمضان کا بیان کیا گیا۔ بعینہ یہی صورت اواخر رمضان اور ابتداء شوال میں بھی ہے۔اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته) کہ روزہ شروع بھی کرو چاند کو دیکھ کر، اور ختم بھی اسے دیکھ کر ہی کرو [متفق علیہ] 
مسئلہ (۵) : رمضان کا مہینہ اگر انتیس کا ہوا تو بھی ثواب پورے مہینہ کا ملے گا۔ البتہ تیس پورے ہونے کی صورت میں زیادتی عمل زیادتی ثواب کا موجب ہوگا۔ لہذا روزے خواہ تیس ہوں یا انتیس ہر ایک اللہ تعالی ہی کے حکم سے ہیں۔ اس لئے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔  
جہات اسلامیہ یا اسلامی تنظیموں پر اعتماد
معتبر ذرائع ابلاغ وتبلیغ سے معتبر جہات اسلامیہ کے اعلان پر اعتمادکیا جائے گا۔ اس شرط پر کہ وہ اسی مطلع کے اندر آتے ہوں۔ ورنہ اپنے مطلع سے کسی کے چاند کا دیکھنا یا معتبر گواہی کا ہونا ضروری ہوگا۔جس طرح سعودی عربیہ سے جہات اسلامیہ کے اعلان کے باوجود اکثر ہند وپاک میں ایک دوروز بعد روزہ شروع ہوتا ہے۔ گرچہ یہ جہات معتبر اور معتمد ہیں، مگر چوں کہ مطلع مختلف ہے۔اس لئے ان کے اعلان پر دوسرے مطلع والوں کا عمل نہیں ہے۔ اسی قسم کے معتبر اور معتمد جہات اپنے علاقہ میں ہوں، تو ان پر اعتماد کرنا غلط نہیں ہوگا۔
میڈیا کے اعلان پر اعتماد
میڈیا اگر اسلامی اصول وضوابط سے باخبرہے، اوراس ضمن میں شریعت کے اصول وضوابط کے تحت اعلان کرے، تو اسے قبول کرنا صحیح ہوگا۔ البتہ اگر میڈیا غیر مؤثق یا مشکوک ہے، تو معتبر جہات سے معتبر ذرائع وحوالے کے ساتھ اعلان کا انتظار کیا جائے گا۔ یا اس اعلان پر شرعی ضوابط کے تحت تحقیق وتفتیش کی جائے گی۔اور بالکلیہ اسی پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔اس سلسلے میں ان ذرائع نشریات کے حالات سے باخبر علماء کی بات زیادہ معتبر ہو سکے گی، جو ان کے حقائق سے مطلع ہوں گے۔ کیوں کہ ظروف واحوال مختلف ہوتے ہیں۔

روزہ کے آداب واحکام
روزہ کسے کہتے ہیں ؟ 
طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک نیت کے ساتھ کھانے پینے بیوی سے جماع کرنے وغیرہ جیسے تمام مفطرات سے اجتناب کرنا روزہ ہے۔ الله تعالے نے فرمايا: ﴿ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ   ترجمه معاني:  تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاه دھاگے سے ظاہر ہوجائے۔ پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔
روزوں کے اقسام واحکام
روزے مختلف قسم کے ہیں، اور ان کے احکام بھی مختلف ہیں ۔ مثلا :
فرض روزے : جیسے رمضان کے روزے، کفارہ کے روزے، نذر مانے ہوئے روزے وغیرہ
مسنون روزے : جیسے یوم عرفہ کا روزہ، عاشوراء محرم کا روزہ، ہر مہینے کے ایام بیض (تیرہ چودہ اور پندرہ تاریخ) کے روزے، ہر ہفتہ سوموار اور جمعرات کے روزے وغیرہ۔
مباح روزے : عام نفلی روزے، جو بغیر دلیل کے کسی چیز کو سبب نہ بنایا گیا ہو، نہ ہی کسی طرح کی کوئی تخصیص یا تعیین کی گئی ہو
ممنوع روزے : جیسے عیدین کے دنوں میں روزہ رکھنا، حاجی کے لئے وقوف عرفہ کے دوران عرفہ کے دن کا روزہ، جمعہ کے دن کو خاص کر کے روزہ رکھنا، رمضان کے استقبال میں رمضان سے ایک دو روز قبل روزہ رکھنا، شوہر کی موجودگی میں اس کی مرضی کے بغیر عورت کا عام نفلی روزہ رکھنا وغیرہ۔
ماہ رمضان کے روزوں کی اہمیت اور فرضیت
اسلام کے پانچ ارکان میں سے ہے۔ جو ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوا۔ بدر کی لڑائی روزہ کی حالت میں لڑی گئی تھی ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ  (سورۀ بقره: 183)  ترجمه معاني: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ( بنی الإسلام علی خمس شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله وإقام الصلاة وإيتاء الزکاة والحج وصوم رمضان)  اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، بیت اللہ کا حج کرنا اور ماہ رمضان المبارك کے روزے رکھنا [متفق علیہ] 
روزہ کس پر فرض ہے؟
روزہ اس وقت تک کسی پر فرض نہیں ہوتا، جب تک بیک وقت چھ شرائط نہ پائے جائیں :
(1)  مسلم ہونا، کیوں کہ اسلام کے بغیر کوئی عمل ہی مقبول نہیں ہوتا ۔
(2) بالغ ہونا ، نا بالغ مکلف نہیں ہے، اس لئے اس پرروزہ فرض نہیں ہوتا۔ البتہ اگر رکھ لے تو اس کا روزہ نفلی ہوگا ۔
(3)  باشعور ہونا ، پاگل یابے ہوش مرفوع القلم غیر مکلف ہے، اس لئے جب تک ہوش میں نہ آجائے روزہ فرض نہیں ہوگا ۔
(4)  مقیم ہونا ، مسافر پر بر وقت روزہ فرض نہیں ہے، البتہ قضاء ضروری ہے ۔ اگر حالت سفر میں رکھ لے تو اس کا روزہ ہو جائے گا ۔
(5)   صحیح سالم ہونا ، بیماری شرعی عذر ہے، اس لئے مریض پر روزہ فرض نہیں ہوگا ۔
(6)   رمضان کے مہینہ کا داخل ہونا، جس طرح وقت داخل ہونے سے پہلے نماز فرض نہیں ہوتی، اسی طرح مہینہ داخل ہوئے بغیر روزہ فرض نہیں ہوتا۔
بچوں کا روزہ
نابالغ بچوں پر روزہ فرض نہیں ہے۔ البتہ عادت دلانے کے لئے انھیں بھی روزہ رکھنے کا حکم دینا چاہئے۔ جو روزہ وہ پورا کر سکیں ، وہ روزہ ہو تو جائے گا، مگر نفلی ہوگا۔ اور اس کا اجر اس کے والدین کو ملے گا۔ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں سے روزہ رکھواتے، اور ان کے لئے کھلونے بناکر رکھتے۔ جب وہ کھانے کے لئے روتے، تو ہم انھیں وہ کھلونے دے دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ روزہ پورا کر لیتے( متفق علیہ ) 
روزہ کی حکمت اور مقصد
روزہ کی بہت ساری حکمتیں ہیں، ان میں سے ایک اہم حکمت یہ ہے کہ روزہ دار کے اندر تقوی پیدا ہو سکے۔روزہ سے روزہ دار کے دل کو تقوی کی تربیت ملتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ  (سورۀ بقره: 183)  ترجمه معاني: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
روزہ کی نیت
عبادت کے لئے نیت ضروری ہے۔ اور روزہ اہم ترین عبادت ہے، اس لئے اس کی نیت کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( من لم يبيت الصيام من الليل فلا صيام له) جس نے رات سے ہی روزہ کی نیت نہ کر لی ہو، اس کا روزہ ہوا ہی نہیں [ابوداوود والنسائی]
اور دارقطنی وبیہقی کی روایت میں من اللیل کی بجائے قبل طلوع الفجر آیا ہے ، یعنی صبح صادق طلوع ہونے سے پہلے۔ فرض روزوں کے لئے رات ہی سے نیت کرلینی چاہئے۔ جب کہ نفلی روزوں میں زوال تک وقت موسع ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک روز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا، کہ کیا کھانے کے لئے کوئی چیز تمہارے پاس ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میرے پاس کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا، پھر تو میں روزہ سے ہوں [أخرجہ النسائی وحسنہ الألبانی] 
رمضان کا چاند نظر آتے ہی پورے مہینے کے دنوں میں مفطرات سے بچنے اور روزہ سے رہنے کا ارادہ کر لینا چاہئے۔ اسی کو روزہ کی نیت کہا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسی ارادہ کو ہر روز طلوع فجر سے پہلے دہرائے۔اسے تجدید نیت کہتے ہیں۔ 
مسئلہ (۱) : نیت کی اہمیت ایسے شخص پرصادق آتی ہے، جو اپنی مشغولیت کے سبب دن بھر کھانے پینے سے دور رہا۔ مغرب کے وقت اسے یاد آیا کہ میں نے تو کچھ کھائے پیئے نہیں، افطاری کر لوں تو روزہ کا ثواب مل جائے گا۔ایسے شخص کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ وہ تو اپنی مشغولیت کے سبب کھانے پینے سے دور رہا ہے،نہ کہ روزہ کے سبب، لہذا اس کے افطاری کر لینے سے دن بھر بھوکے پیاسے رہنا روزہ نہیں بن جائے گا۔یہ وہ جگہ ہے جہاں نیت کی بات آتی ہے۔ اور جو آدمی طلوع فجر سے پہلے بیدار ہوتا ہے، سحری کرتا ہے، اور دل میں دن بھر مفطرات سے دور رہنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہاں نیت کا اور کوئی دوسرا طریقہ نہیں، بلکہ اس کا بیدار ہونا، سحری کھانا، اوردن بھر مفطرات سے دور رہنے کا ارادہ ہی نیت ہیں۔اور انھیں کو نیت کرنا کہا جاتا ہے۔
مسئلہ (۲) : روزہ کے لئے نیت کرنے کا پورا کا پورا عمل دل سے ہونا چاہئے، زبان سے نہیں۔ کیوں کہ عبادت کی نیت بھی عبادت ہی ہوتی ہے۔ اور عبادت میں بغیر دلیل اپنی طرف سے کوئی بھی کمی زیادتی نہیں کی جا سکتی۔جب کہ سلف سے اس جگہ زبانی طور پر نیت کرنا وارد نہیں۔نہ ہی کسی بھی طرح کی کوئی دعاء منقول ہے۔لہذا دل کے ارادہ پر اکتفا کرنا چاہئے۔
جن چیزوں سے رک جانا ضروری ہے
کئی ایسی چیزیں جو غیر حالت صوم میں جائز اور حلال ہوتی ہیں، حالت صوم میں حرام ہو جاتی ہیں، ہمبستری کرنا، کھانا، پینا، حجامت وغیرہ۔ کھانے پینے میں منہ اور ناک کے راستے کوئی بھی چیز پیٹ تک پہونچائی جائے وہ بھی شامل ہے۔نیز غذائیت کے لئے انجکشن وغیرہ کا استعمال یا بھوک اور پیاس سے بچنے کے لئے ٹیکہ وغیرہ شامل ہیں۔ اور جب کئی حلال چیزیں حالت روزہ میں حرام ہو جاتی ہیں، تو یہیں سے حرام اور ناجائز امور کے ارتکاب کی شدت واضح ہو جاتی ہے۔
وہ امور جو روزہ کو چار چاند لگاتے ہیں
تلاوت قرآن، ذکر وتسبیح، عیادت مریض، بے کسوں کو سہارادینا، محتاجوں کی مددکرنا، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مدد کرنا،بھلائی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور جملہ کار خیرسے روزے کو مزید تقویت ملتی ہے۔ کیوں کہ یہ سب تقوی کے موجب ہیں۔ اور روزہ کا مقصد ہی تقوی پیدا کرنا ہے۔
جو چیزیں روزہ کو توڑ دیتی ہیں
عمدا جماع کرنا۔حالت بیداری میں منی کا نکلنا، کھانا، پینا، مغذی انجکشن ، توڑنے کی نیت کر لینا، پچنہ لگوانا،قصدا قے کرناوغیرہ ۔ یہ ایسے امور ہیں جو روزہ کو توڑ دیتے ہیں۔ ناک سے قطرہ ڈالنے کے بعد حلق میں اس کا اثر محسوس کرنا۔ بہت زیادہ خون نکلوانا، کیوں کہ ایسی صورت میں پچنہ لگوانے کے مشابہہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خون چڑھانایا بدلوانا۔ حیض یا نفاس کا خون آجانابھی روزہ کو توڑ دیتا ہے۔ سورج غروب ہوا ہے یا نہیں، اس پر شک ہو تے ہوئے غروب سے پہلے افطاری کر لینا۔ 
بے نمازی کا روزہ
صحیح قول کے مطابق بے نمازی اور تارک صلاۃ کافر اور مخرج من الملۃ ہے۔ اس کی تصدیق میں بہت سی دلیلیں ملتی ہیں۔ اور کافر ومشرک کے کوئی بھی اعمال قابل قبول اور معتبر نہیں ہیں۔ اگر وہ عبادت بھی کریں تو وہ ضائع اور باطل ہے (سورۀ أنعام: ۸۸) لہذا بے نمازی کا روزہ بھی معتبر نہیں ہوگا۔ جب تک وہ توبہ کر کے نماز نہ قائم کر لے۔
جن امور سے روزہ کی فضیلت کم ہو جاتی ہے
جھوٹ اور اس کے متعلقات، لڑائی جھگڑا، چغلی، غیبت،بے جا لہو لعب،گالی گلوج، دن کااکثر حصہ سوکر گذارنا، اعمال خیر سے تغافل، موسیقی اور گانے وغیرہ سننااور کسی بھی طرح کے ناروا امور میں ملوث ہونا، جسے شریعت اسلامیہ نے ناپسندیدہ قرار دیا ہو۔ مذکورہ صورتوں میں روزہ کی فرضیت تو ساقط ہو جائے گی، یعنی اسے دوبارہ اس روزہ کو قضاء کرنا نہیں پڑے گا۔ مگروہ اس روزہ کے فوائد سے محروم ہی رہے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (من لم يدع قول الزور والعمل به والجهل فليس لله حاجة فی أن يدع طعامه وشرابه)  جس نے (روزہ کی حالت میں) جھوٹ اور اس کے لواحق سے پرہیز نہیں کیا، اور جہالت وبے وقوفی نہیں چھوڑی، تو اللہ تعالے کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے (البخاری)
نیز فرمایا : (رب صائم حظه من صيامه ا الجوع والعطش) کہ ایسے بھی روزہ دار ہوتے ہیں جنھیں ان کے روزہ سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی نہیں ملتا (مسند الإمام أحمد)
 ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ (فإن سابه أحد أو يقاتله فليقل إنی امرؤ صائم) اگر کوئی روزہ دار کو گالی گلوج کرے یا اس سے لڑنا چاہے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں (متفق علیہ)
جن امور سے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑتا
بھول کر کسی بھی روزہ توڑنے والے عمل کا ارتکاب کرنا(حاکم)تیل لگانا، سرمہ و کاجل کا استعمال، غسل کرنا، کوئی چیز نگلے بغیر چکھنا، ٹوتھ پیسٹ، مسواک، عطر، صابون، غیر مغذی انجکشن، غیر اختیاری قے ہوناوغیرہ۔اسی طرح کان اور آنکھ سے ڈالے گئے طبی قطرے سے بھی روزہ کو نقصان نہیں پہونچتا۔ البتہ اگرآنکھ اور کان میں قطرہ ڈالنے کے بعد حلق تک پہونچ جائے، تو صحیح قول کے مطابق روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر احتیاطا قضاء کر لینا بہتر ہے ۔اور اگر ناک میں قطرہ ڈالنے کے بعد اس کا اثر حلق میں محسوس ہوا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔کیوں کہ ناک اور منہ کا منفذ ایک ہی ہے۔جسم کے کسی بھی حصہ سے خون نکل آنا۔
عورت کو استحاضہ کا خون آنا۔اضطراری حالت میں حقنہ لگوانا یامنہ کے راستے اسپرے لگانا۔حالت جنابت میں صبح صادق کا طلوع ہو جانا۔سحری کا وقت باقی ہے سمجھ کر طلوع صبح صادق کے بعد بھی کھانا پینا۔

اہل اعذار کے مسائل
لا علمی یا سہو
لا علمی یا بھول چوک سے کسی بھی روزہ توڑنے والے کام کے ارتکاب کرنے سے روزہ نہ تو ٹوٹتا ہے، نہ ہی اس کا قضاء ہے (متفق علیہ والحاکم)
لیکن اگر کھانے پینے کے دوران اسے یاد آ جائے، تو فورا رک جانا اور جو کچھ منہ میں ہے اسے نکال دیناضروری ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دوسرا آدمی اسے کھاتے پیتے دیکھ لے، تو اس کو یاد کرا دینا اس پرواجب ہے۔ کیوں کہ یہ بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قبیل سے ہے۔
مسافرین کا روزہ
رمضان کے دنوں میں اگر کوئی سفر میں ہو، تو علی الاطلاق اس کا روزہ نہ رہنا افضل ہے (سورۀبقره: ۱۸۴) لیکن اگر رکھ لے تو روزہ ادا ہو جائے گا۔اگر دن کے کسی حصہ میں سفر کا ارادہ ہے، تو صبح سے ہی روزہ نہ رکھنا صحیح ہے۔ اسی طرح اگر روزہ رکھ لیا، تو دوران سفر خواہ کھانے پینے کے ذریعہ ہو یا جماع کے ذریعہ، روزہ توڑ سکتا ہے۔اگر دن کے کسی حصہ میں واپس آجائے تو وہ مفطر کے ہی حکم میں ہوگا۔ اگر بیوی روزہ سے نہ ہو تو جماع بھی کر سکتا ہے۔ 
حائضہ ونفساء کا روزہ
حالت حیض ونفاس میں نماز روزہ وغیرہ ممنوع ہیں۔اس لئے حائضہ ونفاس والی عورت روزہ نہیں رکھے گی(متفق علیہ)  اگر رکھ لینے کے بعد دن کے کسی حصہ میں شروع ہو جائے، تو اسی وقت وہ مفطر ہو جائے گی۔ اور اگر دن کے کسی حصہ میں وہ پاک ہو گئی، تو باقی دن امساک کرے گی۔ یعنی اس دن کے باقی حصہ کو روزہ دار کی طرح سے گذارے گی۔  جب کہ اس دن کے روزہ کو قضاء بھی اکرے گی۔
بیمار وعمر دراز کا روزہ
بیمار افراد کو بھی رخصت ہے (سورۀبقرۃ:۱۸۴) جن کی بیماری ایسی ہو کہ شفاء ملنے کی امیدنہ ہو، یا اتنے عمر دراز ہوں کہ صحت مند ہونے کی امید نہ ہو،تو وہ بھی روزہ نہیں رکھیں گے۔

قضاء و کفارہ
قضاء وکفارہ مغلظہ
جس شخص پر روزہ فرض تھا، اور اس نے حالت روزہ میں جماع کر لیا، تو اس پر توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ قضاء اور کفارہ مغلظہ دونوں فرض ہیں۔ اور کفارہ کی ترتیب یہ ہے کہ اگر طاقت ہے تو ایک گردن آزاد کرے۔ اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو دو مہینہ مسلسل روزہ رکھے۔ اگر اس کی طاقت نہیں ہے، تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے۔اور ایک مسکین کی مقدار نصف صاع نبوی یعنی تقریبا ڈیڑھ کیلو اناج کے برابر ہے۔ان میں ترتیب ضروری ہے۔ اگر گردن آزاد کرنے کی طاقت ہے تو دو مہینہ کا روزہ کافی نہیں ہوگا۔ اسی طرح روزہ رکھنے کی طاقت ہے تو مسکین کو کھانا کھلانا کافی نہیں ہوگا۔
قضاء وفدیہ
ہر قسم کا قضاء دوسرا رمضان آنے سے پہلے پہلے ضروری ہے۔ہر وہ فرد جس پر روزہ کا قضاء فرض تھا، اور وہ قضاء کرنے میں تاخیر کرتا رہا۔یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا۔ تو اگر اس کی تاخیر عذر شرعی مثلا بیماری ،حمل ،رضاعت یا مسلسل سفر کے سبب تھی، تو صرف قضاء کرے گا۔ ورنہ قضاء کے ساتھ ساتھ ہر روزہ کے بدلے ایک ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی ضروری ہوگا۔ ابن عباس وغیرہ کا یہی فتوی ہے۔
قضاء وتوبہ
سستی اور کاہلی سے روزہ نہ رکھنے والے، اور جان بوجھ کربلا عذر ما سوا جماع کے روزہ توڑنے والے امور کا ارتکاب کرنے والے پر قضاء کے ساتھ ساتھ توبہ واستغفار بھی ضروری ہے۔ آئندہ ایسا نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اس روزہ کا قضاء کرے گا۔
صرف قضاء
جنھوں نے سفر یا بیماری یاحیض ونفاس کی وجہ سے ، یا دودھ پلانے والی عورت اپنے یا بچہ پر خطرہ محسوس کرتے ہوئے،یا حاملہ عورت نے رخصت قبول کرتے ہوئے روزہ نہیں رکھا تھا۔ ان پر صرف اتنے دنوں کا قضاء ضروری ہے، جتنے دنوں کا انھوں نے روزہ نہیں رکھا تھا۔
صرف فدیہ
ایسی بیماری جس سے شفاء کی امید نہ ہو، یا ایسی کمزوری جو عمر درازی کے سبب ہو، اور دوبارہ صحت مند ہونے کی امید نہ ہو، وہ لوگ ہر روزہ کے بدلہ ایک ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے۔ ان پر قضاء نہیں ہے،بلکہ صرف فدیہ دینا کافی ہے۔
مسئلہ : نہ قضاء نہ فدیہ جو روزے شدید بیماری کی حالت میں چھوٹ گئے، اور اسی بیماری میں اس کی موت ہو گئی، تو بہت سے علماء اس کے قضاء وفدیہ دونوں کو ساقط قرار دیتے ہیں۔
مسئلہ : اگر کسی میت کا چھوٹا ہوا روزہ باقی ہے، تو اسے اس کے ورثاء اس کی طرف سے رکھیں گے۔ اگر کوئی وارث نہیں ہے، تو اس کے ترکہ میں سے فدیہ ادا کردیا جائے گا۔ اگر ترکہ میں کچھ نہ ہو، یا قرض کی ادائیگی یا تجہیز وتکفین میں ختم ہو گیا، تو اس سے وہ روزے ساقط ہو جائیں گے۔ 

سحری وافطاری کے آداب واحکام
سحری
سحری کہتے ہیں صبح کے کھانے کو۔ سحری کھا کر روزہ رہنا سنت ہے۔ کیوں کہ بہت زیادہ بھوک اور پیاس کی شدت انسان کو کئی قسم کے اعمال خیر سے دور کر دیتے ہیں۔ روزہ کی حالت میں ایسا نہ ہو اور نشیط ہوکر کار خیر میں آگے آگے رہیں ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (تسحروا فإن فی السحور برکة)  سحری کھایا کرو کیوں کہ سحری میں برکت ہے( متفق علیہ)
یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ سحری میں افراط وتفریط نہ ہو۔ کیوں کہ بعض اوقات بھوک اور پیاس کی طرح کھانے میں عدم توازن بھی نشاط میں مخل بن جاتا ہے۔ بہترین سحری کھجور ہے (ابو داوود)
آدھی رات سے لے کر طلوع فجر تک سحری کا وقت ہے۔مگر اس میں جتنا لیٹ کیا جائے بہتر ہے ، بلکہ اس کی فضیلت آئی ہے ۔ البتہ اتنا لیٹ نہ کیا جائے کہ روزہ اثر انداز ہو جائے۔ جس طرح افطاری سے کچھ دیر پہلے جان بوجھ کر کھانا پینا روزہ کو توڑ دیتا ہے۔ اسی طرح جان بوجھ کر طلوع صبح صادق کے بعد کھانا پینا خواہ اذان ہو گئی ہو یا نہ ہوئی ہو، روزہ کو توڑ دیتا ہے۔ سحری کا بہترین وقت سحری کے بعداور اذان سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ سکیں اتنا وقت ( قدر خمسين آية) پچاس آیت پڑھنے کے مقدار (البخاری)
سحری یا سحری کی نیت کے لئے زبانی طور پر کوئی دعاء وغیرہ منقول نہیں ہے۔ اس لئے رائج رسومات سے متأثر ہو کر غلطیوں کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئے۔ یہاں بھی دل سے ارادہ کر لینا کافی ہے۔اگر کھانے پینے کے لئے کوئی چیز نہ ملے تو پانی پی لینے سے بھی سحری ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کی نیند اذان سن کر یا اذان کے بعد کھلی، یا فجر طلوع ہو نے کے بعد کھلی، خواہ اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، تو اب کھانا پینا صحیح نہیں ہوگا، بلکہ بغیر سحری کے ہی روزہ رکھ لے۔ اور اس سے اس کے روزہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔البتہ سحری کی سنت چھوٹ جانے کے سبب وہ اسکے ثواب اور برکت سے محروم رہے گا۔ 
افطاری
افطاری سے مقصود روزہ کھولنا ہے۔ یہ ان اوقات میں سے ہے، جن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں [الترمذی وابن ماجہ]  نیز یہ وہ وقت ہے جب روزہ دار کو اس توفیق پر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اس لئے افطاری سے پہلے (بسم الله) اور افطاری کے بعد ( ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله ) پیاس مٹ گئی، رگیں تر ہوگئیں اور ان شاء اللہ ثواب ثابت ہو گیا[ابو داوود] پڑھنا مسنون ہے۔
اگر دوسرے کے یہاں افطاری کر رہے ہوں تو ( أفطر عندکم الصائمون وأکل طعامکم الأبرار وصلت عليکم الملائکة) روزے داروں نے آپ كے يهاں افطاري كي, نيك لوگوں نے آپ كا كھانا كھايا, اور فرشتوں نے آپ كو دعائيں ديں۔
واضح رهے كه مشهور دعاء: ( اللهم لک صمت وعلی رزقک أفطرت ) اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی دئے ہوئے رزق سے افطاری کی[ابو داوود]  اس كي سند ضعيف هے۔
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ( للصائم فرحتان ) روزہ دار کو دو خوشیاں اس کے روزوں کے سبب ملتی ہیں، ایک جب وہ افطار ی کرتا ہے، اور دوسری جب وہ الله سے ملے گا [متفق علیہ]
سورج غروب ہوتے ہی فورا افطاری کر نی چاہئے(متفق علیہ) خواہ اذان ہو گئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ جان بوجھ کر لیٹ کرنا صحیح نہیں ہے۔
میسر ہو تو کھجور سے افطاری کرنا مستحب ہے، ورنہ زمزم سے یا عام پانی سے افطار کر لینا چاہئے(حاکم)  اگر افطاری کے لئے کوئی کھانے پینے کی چیز موجود نہ ہو تو نیت سے ہی افطاری ہو جائے گی۔ انگوٹھے کو چوسنے یا منہ میں تھوک جمع کر کے نگلنے کی ضرورت نہیں ۔ 
کسی روزہ دار کو افطاری کرانا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (من فطر صائما کان له مثل أجره غیر أنه لا ينقص من أجر الصائم شيء) جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا ، اسے اس کے روزہ کے برابر ثواب ملے گا۔ جب کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی [النسائی وأحمد وصححہ الألبانی]
اور حضرت سلمان کی حدیث میں ہے (من فطر فيه صائما کان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار وکان له مثل أجره من غير أن ينقص من أجره شيء فقالوا يا رسول الله ليس کلنا يجد ما يفطر به الصائم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطی الله هذا الثواب لمن فطر صائما علی مذقة لبن أو شربة ماء أو تمرة وأن من سقی صائما سقاه الله من حوضی شربة لا يظمأ بعدها حتی يدخل الجنة) جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا،تو یہ اس کے گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے گلو خلاصی کا سبب ہوگا۔ اور روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی آئے بغیر اسے اس کے برابر ثواب ملے گا۔صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس روزہ دار کو افطار کرانے کی طاقت تونہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالے یہ ثواب ہر اس آدمی کو دے گا، جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ سے، ایک چلو پانی سے یا ایک کھجور سے ہی افطار کرا دے۔ اور جس نے کسی روزہ دار کو پلایا، اللہ تعالے اسے میرے حوض سے سیراب کریں گے، جس کے بعد کبھی وہ پیاسا نہیں ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو جائے گا (النسائی وأحمد)

ذکر واذکار اور تسبیح وتلاوت 
قرآن کی تلاوت اور دور
رمضان میں بالخصوص کثرت سے قرآن کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ رسول اللہ ﷺ رمضان میں کثرت سے قرآن کی تلاوت فرماتے، کبھی جبریل کو سناتے اور کبھی جبریل سے سنتے تھے ۔ آخری سال تو آپ ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ دوبار دور فرمایا تھا (متفق علیہ)
غیر رمضان میں ایک ایک حرف پڑھنے سے دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔ مگر رمضان میں اس کی قیمت اور بڑھ جاتی ہے۔
ذکر واذکار
اس مبارک مہینہ میں تلاوت ہی کی طرح سے ذکر واذکار کثرت سے کرنا چاہئے۔ذکر کرنے والوں پر اللہ کی رحمت برستی ہے۔ اللہ تعالے ان سے خوش ہوتا ہے۔ اور ان کی مغفرت فرماتا ہے۔ ذکر کے بیشمار فضائل ہیں۔ اور رمضان میں تو اس کی فضیلت مزید بڑھ جاتی ہے۔اس لئے ہر لمحہ رب سے جڑے رہنے کے لئے ذکر میں رطب اللسان رہنا چاہئے۔ اس طرح رمضان میں کی گئی عبادتوں کی قبولیت کا امکان بڑھ جائے گا۔
رسول اللہ ﷺ ایک پل بھی ذکر واذکار سے غافل نہیں رہتے تھے ( متفق علیہ)  لہذا غیر رمضان میں عموما اور رمضان میں خصوصا کوئی لمحہ ضائع نہیں کرنا چاہئے۔کیوں کہ رمضان کا ایک ایک پل بڑا ہی قیمتی ہے۔
توبہ واستغفار
توبہ واستغفار اس مہینہ کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے۔ جس شخص کی توبہ قبول ہوگئی، اور رب نے اسے بخش دیا، وہ رمضان کے فضائل وبرکات سے محظوظ ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ ہر لمحہ توبہ واستغفار کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک ایک دن اور ایک ایک مجلس میں ستر ستر بار استغفار کرتے تھے ( مسلم) اس لئے رمضان میں اس کا اہتمام زیادہ کرنا چاہئے۔ 

صدقہ وخیرات
صدقۀ فطر
صدقہ فطر ہر نفس کی طرف سے واجب ہے۔ خواہ نو مولود بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہرایک کی طرف سے ایک صاع اناج ادا کرنا ضروری ہے۔ جو تقریبا تین کیلو گرام کے مساوی ہے۔ غیر مکلف افراد کی طرف سے ان کے اولیاء پر ادا کرنا واجب ہے۔ اسی طرح مکلف افراد کی طرف سے اگر کسی نے ادا کر دیا ، تو ادا ہو جائے گا۔
اگر کسی نے نقدی یا روپیہ کے طور پر دیا تو وہ ادا نہیں ہوگا۔بلکہ جنس مطعومات میں سے اناج گیہوں، جو، آٹا، کھجور،کس مس ، چاول وغیرہ جیسی چیزیں ہی ادا کرنی ہوں گی۔ اسی طرح دھان یا اس طرح کے غیر مطعوم اجناس سے ادا نہیں ہوگا۔  بلکہ چاول ادا کرنا صحیح ہوگا۔ کیوں کہ وہ مطعومات میں سے ہے۔ اگر کسی کے پاس اناج نہ ہو تو وہ اسی پیسہ سے خرید کر اناج ہی ادا کرے۔ اور اسے اپنے ہی علاقہ میں غرباء ومساکین کے درمیان تقسیم کر دینا چاہئے۔ اگر اس علاقہ میں کوئی بھی غریب مسکین یا حقدار نہ ہو، توایسی صورت میں بہت سے علماء نے اسے دوسری جگہ بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ہر فرد جو جہاں ہے۔  وہیں ادا کرے گا۔ گھر کا کوئی فرد اگر پردیش میں ہے، تو وہ وہیں اپنا صدقہ فطر ادا کرے۔ اور باقی گھر والوں کو اپنے یہاں ادا کرنا چاہئے۔ 
صدقہ وخیرات
صدقہ وخیرات عام دنوں میں بھی کار ثواب ہے۔ خصوصا رمضان میں اس کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ یوں تو ہمیشہ خود نہ کھا کر دوسروں کو کھلاتے تھے۔ مگر رمضان میں کھلی ہوا کی طرح آپ کے ہاتھ روکے نہیں رکتے تھے ( البخاری)
خاص کر عید کے دن اپنی خوشی میں غریبوں بیواؤں، بے کسوں، ناداروں یتیموں اور محتاجوں کو شریک کرنا چاہئے۔ ہو سکے توکپڑے ، اناج، پیسہ وغیرہ سے ان حاجت مندوں کی مدد کرنی چاہئے (مسند الإمام أحمد)
عیدگاہ جاتے آتے ہوئے، یا عیدگاہ میں اور باقی پورے دن اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ آپ ﷺ نے عیدگاہ میں خصوصی طور پر عورتوں سے خطاب فرمایا ۔ اور انھیں صدقہ وخیرات کرنے کا حکم دیا۔ جسے سن کر عورتوں نے اپنے اپنے پہنے ہوئے کنگن پازیب اور ہار وغیرہ اتار کر صدقہ کر دئے (البخاری)  
ماہ رمضان میں عمرہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (عمرۃ فی رمضان تعدل حجۃ) اور ایک روایت میں ہے (حجة معي) رمضان کے مہینہ میں عمرہ کا ثواب کامل حج کے برابر ہے (متفق علیہ)
اور دوسری روایت کے مطابق رمضان کے عمرہ کا ثواب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔اور یہ فضیلت رمضان کے پورے مہینے میں ہے۔ نہ کہ کوئی خاص دن۔ البتہ آخری عشرہ کی فضیلت کے پیش نظر زیادہ بہتر ہے۔

قیام اللیل کے آداب واحکام
قیام اللیل کی فضیلت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه) جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان میں قیام کیا اس کے تمام گذرے گناہ بخش دئے گئے۔
نیز فرمایا: ( من قام مع الإمام حتی ينصرف ...) جس نے امام کے ساتھ قیام کیا ،یہاں تک کہ امام نے نماز ختم کر لی، تو اس کے لئے یہ قیام اللہ تعالے کے یہاں پوری رات کے قیام کے برابرحساب ہوتا ہے [أحمد ،أبوداوود ،النسائی، ابن ماجہ، الدارمی، ابن خزیمہ، ابن حبان، والبیہقی وغیرہم باسناد صحیح]
خواہ امام نے دو چار رکعت یا آٹھ دس رکعت یا جتنی رکعتیں ہی کیوں نہ پڑھی ہو۔ جس نے اس كے ساتھ شروع كيا, اور اسي كے ساتھ ختم كيا, تو باذن الله اس کو  پوری رات کے قیام کا ثواب ملےگا۔
قیام اللیل کے لئے جماعت
نماز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ۔تین روز تک صحابہ نے آپ کے پیچھے قیام کیا، اور آپ ﷺ نے یہ جاننے کے باوجود کہ صحابہ آپ کی اقتداء میں تراویح ادا کر رہے ہیں، کسی کو منع نہیں فرمایا۔ پھر اس ڈر سے کہ کہیں اللہ تعالے کو یہ عمل پسند آجائے اور امت پر فرض نہ کر دے۔ آپ ﷺ نے جماعت کرانا ترک کر دیا(البخاری)
لہذا تراویح اور جماعت دونوں ہی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں ۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں جب لوگوں کے حرص اور ان کی ایک بڑی تعداد کو الگ الگ پڑھتے ہوئے دیکھا،تو رسول اللہ ﷺ کے اسی ترک کئے ہوئے عمل کو پھر سے جاری کر دیا۔ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو جو کہ اہل مدینہ کے بہترین قاری تھے، امامت کرانے کا حکم دیا۔کیوں کہ اب اس کے امت پر فرض ہونے کا ڈر نہیں تھا۔
قیام اللیل کتنی رکعت ؟
قیام اللیل جسے رمضان میں تراویح اور غیر رمضان میں تہجد کہتے ہیں، ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ( ما کان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره من إحدی عشر رکعة) رسول اللہ ﷺ رمضان ہو یا غیر رمضان کبھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے [متفق علیہ]  
آٹھ رکعت تہجد یا تراویح کے اور تین رکعت وتر کے، کل گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے۔  لہذا اگر کوئی رکعت متعین کرکے پڑھنا چاہے، تو آٹھ رکعت سے کم یا زیادہ متعین کرنا رسول اللہ ﷺ کے عمل کے خلاف ہوگا۔ بعض روایت میں تیرہ رکعت کا ذکر بھی آیا ہے۔ مگر ان روایتوں میں فجر کی دو رکعت سنت کو بھی شمار کر لیا گیا ہے۔ اگر قیام میں شمار کر لیا جائے تو بھی یہی کہا جائے گا، کہ آپ ﷺ نے رکعت کی تعیین کئے بغیر پڑھی تھی۔اگر تعیین کو ہی تسلیم کر لیا جائے, تو امکان ہے کہ آپ ﷺ نے وتر کی پانچ رکعت پڑھی ہو۔یا اگر قیام ہی میں سے شمار کر لیا جائے توقیام کے آٹھ یا دس رکعت ہی بنتے ہیں۔یعنی اگر رکعت کی تعیین کے ساتھ پڑھنی ہے، تو آٹھ رکعت یا دس رکعت ہی پڑھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی صحیح روایت کے مطابق ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو آٹھ رکعت ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔رسول اللہ ﷺ کے عمل میں سوائے گیارہ اور تیرہ رکعت کے کوئی تیسری تعداد منقول نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی کم یا زیادہ پڑھنا چاہتا ہے، تو رکعت کی تعداد متعین کئے بغیر پڑھے۔ کیوں کہ آپ ﷺنے رکعت کی تعداد متعین کئے بغیر جتنی مرضی ہو پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (صلاة الليل مثنی مثنی فإذا خشی أحدکم الصبح ... ) رات کی نماز رکعت متعین کئے بغیر جتنی مرضی ہو دو دو رکعت پڑھتے رہیں۔ اور جب فجر طلوع ہونے اور وتر کا وقت فوت ہو جانے کا خوف ہو، تو ایک رکعت پڑھ لیں جو وتر بن جائے گی [متفق علیہ]
امام کے ساتھ قیام کرنے کی فضیلت والی روایت بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ کہ رکعت متعین کئے بغیر امام جب تک پڑھتا رہے، مقتدی اس کے ساتھ پڑھتا رہے ( مع الإمام حتی يرجع ) یہاں تک کہ امام اپنی نماز ختم کر لے۔ 
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کوئی رکعت متعین کر کے پڑھنا چاہتا ہے، تو آٹھ یا دس رکعت سے کم یا زیادہ متعین کرنا صحیح نہیں ہو گا۔ کیوں کہ بغیر دلیل عدد وقت کیفیت اور زمانہ وغیرہ اپنی طرف سے متعین کر لینے سے ثابت شدہ عمل بھی بدعت بن جاتا ہے۔ ہاں اگر کسی کو کم یا زیادہ پڑھنے کا ارادہ ہے، تو اسے رکعات کی تعداد متعین کئے بغیر جتنی مرضی ہو پڑھنا چاہئے۔ اس کی ممانعت نہیں بلکہ اجازت ہے۔
واضح رہے کہ تراویح ایک مستقل عبادت ہے۔ اور روزہ ایک مستقل عبادت ہے۔ کسی کا ایک دوسرے میں کوئی دخل نہیں ہے۔ لہذا جو تراویح پڑھے گا، اسے اس کا ثواب ملے گا۔اور جس کی تراویح فوت ہو جائے وہ اس کے ثواب سے محروم رہ جائے گا۔ البتہ دونوں صورتوں میں اس کے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔بعض لوگ روزہ کے لئے تراویح کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور اسی لئے جس روز ان کی تراویح کی نماز فوت ہو جاتی ہے، اس روز وہ روزہ نہیں رکھتے ہیں۔ بلکہ غیر رمضان میں بھی روزہ رکھنا ہو تو تراویح کا پڑھنا ضروری سمجھتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔تراویح رمضان کا عمل ہے۔ غیر رمضان میں اسے تہجد کہتے ہیں۔ جسے خواہ روزہ رکھنا ہو یا نہ ہو اس کے وقت میں ادا کیا جائے گا۔
کثرت سجود یا کثرت قراء ت
زیادہ رکعت کی صورت میں رکوع وسجدے زیادہ ہوں گے۔ جب کہ قراء ت کم ہو گی۔یعنی قیام اور قراء ت مختصر ہوں گے۔ کثرت قراء ت کی شکل میں لمبا قیام اور رکوع وسجدے کم مگر طویل ہو جائیں گے۔ اور یہ مرضی پر منحصر ہے۔ اگر سستی محسوس ہویا دیر تک کھڑا ہونے میں تکلیف ہو، تو جلدی جلدی رکوع وسجدہ کرے۔ ورنہ طویل قراء ت اور طویل قیام ورکوع وسجود کرے۔ طویل قیام اور طویل رکوع وسجود کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے عمل میں ملتا ہے۔ اس لئے اسے افضل کہنا درست ہوگا۔ جب کہ سلف کا عمل دونوں پر رہا ہے۔
قیام اللیل میں ختم قرآن
سلف صالحین میں ایک سے زیادہ ختم کا اہتمام کیا جاتا تھا۔اور تدبر وتمعن کے ساتھ پڑھ کر ختم کیا جاتا تھا۔ اسی لئے علماء نے کم از کم رمضان میں قیام اللیل کے دوران ایک ختم کی تاکید بیان کی ہے۔ اور اس سے کم کو نا پسندیدہ اور مکروہ قرار دیا ہے۔بہت سے لوگ ختم کرنے کی عجلت میں کتاب اللہ کے حقوق ہی ضائع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے لوگ غیر ضروری سمجھ کر ختم کا اہتمام نہیں کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ کم از کم ایک بار ختم ہونا چاہئے۔ اور حقوق قراء ت کی رعایت کے ساتھ۔ نہ کہ اس طرح کی قراء ت جس کا رواج بنا لیا گیا ہے۔
دعاء ختم القرآن
بلا اختلاف زمان ومكان سلف ميں تراويح كے دوران مكمل قرآن ختم كرنے كا ذكر ملتا هے۔ اور وه ايك سے زياده بار قرآن كو ختم كيا كرتے تھے۔ نيز نه ختم كرنے كو كراهت جانتے تھے۔ قرآن پڑھنے کے بعد بالخصوص ختم کرنے کے بعد کا وقت ان اوقات میں سے ہے جن میں دعاؤں کی قبولیت کا زیادہ امکان رہتا ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب ختم کرتے، تو پورے گھر والوں کو بلاکر دعاء میں شریک کرتے تھے۔
لیکن رمضان کے آخری عشرہ کے قیام اللیل میں نماز کے اندر ختم قرآن کی دعاء کا جو طریقہ بہت سی جگہوں میں رائج ہے، اس کی کوئی صریح صحیح روایت نہیں ملتی ہے۔ البتہ بہت سے علماء اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔لیکن اگر وتر کی آخری رکعت میں قرآن کو ختم کیا جائے، اور دعاء قنوت وتر میں ختم قرآن کی دعائیں بھی شامل ہوجائیں، تو شاید یہ اس عمل کے لئے ایک مناسب اور صحیح حل ہوگا۔ کیوں کہ وتر کی آخری رکعت میں کبھی کبھی دعاء کرنا ثابت ہے۔ گرچہ اس کے لئے مخصوص دعاء ہے، مگر علماء نے اس پر اضافہ کی گنجائش بیان کی ہے۔ اگر وہ اضافہ ختم قرآن کی دعاء ہو تو شاید موجودہ رسم ختم القرآن کے مقابلے زیادہ بہتر ہوگا۔ والله تعالی أعلم وعلمه أتم وأحکم.
مروجہ شبینہ یا ختم
شبینہ کہتے ہیں رمضان کی راتوں میں سے کسی ایک رات یا چند راتوں کو مکمل قرآن کے ساتھ قیام کرنا۔ جس میں ایک ہی رات یا ان چند راتوں میں قیام کے دوران پورا قرآن پڑھا جاتا ہے۔اور اسی دن تراویح بھی ختم ہوجاتی ہے۔ پھر رمضان کی باقی راتوں میں قیام نہیں کرتے ۔ یہ عمل اپنی تمام شکل وصورت کے ساتھ بدعت ہے۔جس کا وجود خیر القرون میں نہیں تھا۔ نہ ہی موجودہ معتبر علماء نے اسے قبول کیا ہے۔رسول اللہ ﷺ سے قرآن کریم کو تین دن سے کم میں ختم کرنے کی ممانعت بھی آئی ہے (البخاری)
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ایک رسم ہے۔ جب کہ قیام اور قراء ت عبادت ہیں۔ اور عبادت کو رسم ورواج بنانے کے خطرہ سے محفوظ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اگر اسے تسلیم کر لیا جائے تو درجنوں مختلف احادیث سے دامن بچانا ضروری ہو جائے گا۔

نماز وتر اور دعاء قنوت
نماز وتر اور اس کی کیفیت
وتر کے معنی ہیں طاق اور بے جوڑ کے۔ اور اصلا یہ ایک رکعت ہے۔ یعنی رات کی نمازوں کا اختتام ایک رکعت سے کرنا وتر کہلاتا ہے۔اور اس کا پڑھنا سنت مؤکدہ ہے۔ حتی کہ سفر میں بھی وتر کا اہتمام کیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ اسے قیام اللیل کے بعد پڑھا کرتے تھے۔نیز فرمایا : تم اپنی رات کی نمازوں (تہجد) کو دو دو رکعت کر کے پڑھتے رہو، اور جب صبح صادق طلوع ہو جانے کا ڈر ہو، تو ایک رکعت پڑھ لو، وہ وتر ہوجائے گی [بخاری ومسلم]
آپ ﷺ سے رمضان ہو یا غیر رمضان تراویح یا تہجد کی نماز آٹھ رکعت یا دس رکعت ہی ثابت ہیں۔اس طرح سے پوری نماز یا تو نو رکعت یا گیارہ رکعت یا تیرہ رکعت بنتی ہے۔یا بغیر رکعت متعین کئے دو دو رکعت جتنی مرضی ہو پڑھتے رہیں، اور آخر میں ایک رکعت پڑھ لیں۔
اس ایک رکعت کو آخری دو رکعتوں کے ساتھ ملا کر پڑھنا بھی مشروع ہے۔ اور ملاکر پڑھنے کی صورت میں تھوڑی توضیح کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ مغرب کی نماز بھی تین رکعت ہے۔ اور ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے وتر کی نماز کو مغرب کی نماز کے مشابہ بنانے سے منع فرمایا ہے [الموطأبروایۃ محمد، ابن حبان، الدارقطنی والطحاوی]  جب کہ تین رکعت پڑھنے کی تخییر حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ملتی ہے [ابن ماجہ، ابن حبان، الحاکم والدارقطنی]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا سیاق بھی تین رکعت ملا کر پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ کہ پہلی رکعت میں آپ ﷺ نے (إذا زلزلت) اور دوسری رکعت میں (قل يا أيها الکافرون) اور تیسری رکعت میں (قل هو الله أحد) اور کسی روایت میں تیسری رکعت میں (قل هو الله أحد) کے ساتھ ( قل أعوذ برب الفلق) اور (قل أعوذ برب الناس) بھي پڑھی [أبوداوود، الترمذی ،النسائی، ابن ماجہ،ابن حبان، الحاکم والطحاوی]
پهلا طريقه: دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر تیسری رکعت الگ سے پڑھیں۔یہ طریقہ ہر اعتبار سے سب سے افضل ہے۔یعنی دو تشہد اور دو سلام کے ساتھ۔
دوسرا طریقہ: یہ ہے کہ تینوں رکعت ایک ہی سلام سے پڑھیں ، البتہ مغرب کی نماز سے مختلف ہو، اس کے لئے دوسری رکعت میں تشہد میں نہ بیٹھیں۔ اور تیسری رکعت میں ایک تشہد اور ایک سلام کے ساتھ نماز پوری کر لیں۔ تاکہ مغرب سے الگ ہو جائے۔ کیوں کہ پانچ اور تین رکعت پڑھنے کی کی صورت میں ہر دو رکعت میں تشہد میں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ اور چوں کہ اصلا جواز ہونا چاہئے، اس لئے پانچ رکعت والی وتر میں بیٹھنا اور نہ بیٹھنا دونوں برابر ہے۔ جب کہ تین رکعت والی مغرب کے مشابہ ہو جائے گی، اس لئے دوسری رکعت میں بیٹھنا مشروع نہیں ہے۔
بہت سے لوگوں میں جو طریقہ رائج ہے۔ وہ ایک ساتھ تین رکعت دو تشہد اور ایک سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔اس طرح ان کی وتر کی نماز بالکل مغرب کی نماز کے مشابہ بن جاتی ہے۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر کی نماز کو مغرب کی نماز کے مشابہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔ اسی لئے ان لوگوں نے ایک بے بنیاد عمل کا اضافہ کر لیا، تا کہ وتر اور مغرب کی نمازوں کے درمیان فرق ہو جائے۔اور وہ عمل دعاء قنوت وتر سے پہلے رفع الیدین کے ساتھ اللہ اکبر کہتے ہوئے دوبارہ باندھ لینا ہے۔ مگر یہ عمل بے بنیاد ہونے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کیوں کہ دعاء قنوت وتر کا کبھی کبھی چھوڑنا بھی سنت ہے۔ تو جس دن دعاء قنوت نہ پڑھی جائے اس دن وتر اور مغرب کی نمازوں کے ما بین کون سا فرق رہ جائے گا ؟!  شايد اس وجه سے انھوں نے قنوت وتر كي دعاء كو هي واجب قرار دے ديا هے۔ اہل علم نے اس طریقہ کو صحیح نہیں کہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے رات کی نماز کے کل چھ طریقے صحیح وصریح طور پر ثابت ہیں :

صلاة الليل
تہجد، قیام یا تراویح مع وتر 
رات کی نماز کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے عملی طور پر کل چھ طریقے ثابت ہیں :
(۱)کل تیرہ (۱۳) رکعت : ہلکی دو رکعتوں سے شروع کرے، جو صحیح قول کے مطابق عشاء کی بعد والی سنت ہے۔ یا یہ دونوں رکعت خاص ہیں رات کی نماز شروع کرنے کے ساتھ۔ پھر طویل دو رکعت پڑھے، پھر دو رکعت اس سے کم لمبی، پھر دو رکعت اس سے کم، پھر دو رکعت اس سے کم، پھر دو رکعت اس سے کم، پھر ایک رکعت کے ساتھ وتر کرے۔ [2, 2, 2, 2, 2, 2, وتر 1]
(۲) کل تیرہ (۱۳) رکعت : ایک سلام اور دو تشہد سے نو (۹) رکعت پڑھے۔پہلی سے ساتویں رکعت تک کسی بھی رکعت میں تشہد میں نہ بیٹھے۔ آٹھویں رکعت میں تشہد اول جس میں التحیات پڑھ کر بغیر سلام پھیرے کھڑا ہو جائے ۔ اور نویں رکعت میں تشہد ثانی پڑھ کر سلام پھیرے۔ پھر ایک تشہد اور ایک سلام سے پانچ رکعت کے ساتھ وتر کرے۔ سوائے پانچویں رکعت کے کسی بھی رکعت میں نہ بیٹھے۔ [9, وتر 5]
(۳) کل گیارہ (۱۱) رکعت : دو دو رکعت کر کے پڑھتا رہے، اور آخر میں ایک رکعت کے ساتھ وتر کرے۔ [2, 2, 2, 2, 2, وتر 1]
(۴) کل گیارہ (۱۱) رکعت : ایک سلام کے ساتھ چار رکعت پڑھے، پھر ایک سلام کے ساتھ چار رکعت۔ اور تین رکعت کے ساتھ وتر کرے۔ [4, 4, وتر 3]
ہر دو رکعت میں تشہد میں بیٹھیں گے یا نہیں، اس بارے میں کوئی صریح نص وارد نہیں ہے۔ اور چوں کہ ہیئت نماز میں ہر دو رکعت پر تشہد میں بیٹھنا اصلا جواز ہے۔ اس لئے ہر دوسری رکعت میں تشہد میں بیٹھنا غلط نہیں ہوگا۔ اور اگر کوئی نہ بیٹھے، بلکہ ایک ہی تشہد اور ایک سلام سے چار رکعت پڑھے، تو بھی کوئی حرج نہیں ، کیوں کہ اس جگہ اس تشہد کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔البتہ وتر کوایک سلام کے ساتھ تین رکعت پڑھنے کی صورت میں دوسری رکعت میں تشہد میں بیٹھنا مشروع نہیں ہے۔ کیوں کہ اس طریقہ سے وتر کی نماز مغرب کی نماز کے مشابہ ہو جائے گی۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر کی نماز کو مغرب کی نماز کے مشابہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
(۵) کل گیارہ (۱۱) رکعت : دو تشہد اور ایک سلام سے نو (۹) رکعت پڑھے۔ آٹھویں رکعت میں تشہد اول کے بعد بغیر سلام پھیرے کھڑا ہو جائے۔ اور نویں رکعت میں تشہد ثانی کے بعد سلام پھیرے۔ اور اس کے بعد دو رکعت پڑھے۔   کچھ لوگوں نے بعد کی دو رکعت کو فجر کی سنت قرار دیا ہے، مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔[9 مع وتر, نفل 2]
(۶) کل نو (۹) رکعات : چھٹی رکعت میں تشہد اول پڑھ کر بغیر سلام پھیرے کھڑا ہو جائے، اور ساتویں رکعت میں تشہد ثانی پڑھ کر سلام پھیر دے۔ پھر اس کے بعد دو رکعت پڑھے۔[7 مع وتر, نفل 2]
آپ ﷺ کا فرمان (الوتر حق ) والی روایت سے مزید تین کیفیتیں قولی طور پر ثابت ہوتی ہیں :
(۷) کل پانچ رکعت : مذکورہ طریقوں میں سے کسی بھی طریقہ کے مطابق پانچ رکعت پڑھے۔ خواہ ایک ہی سلام سے پانچوں رکعت ، یاچار اور ایک، یا دو دو اور ایک ، یا دو اور تین، یاپھر تین اور دو
(۸) کل تین رکعت : خواہ ایک تشہد اور ایک سلام سے تینوں رکعت پڑھے۔ یا دو اور ایک ، یا پھر ایک اور دو
(۹) محض ایک رکعت : ایک رکعت پڑھنے کی صورت میں کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔
نیز (
من قام مع الإمام حتی يرجع) اور (صلاة الليل مثنی مثنی) کی روایتوں سے ایک اور کیفیت کی دلیل ملتی ہے :
(۱۰) بلا تحدید رکعات : رکعات متعین کئے بغیر دو دو رکعت پڑھتے رہیں۔ خواہ جتنی رکعت بھی ہو جائے۔ اور آخر میں ایک رکعت پڑھ لیں۔
واضح رہے کہ ایک سے لے کر تیرہ رکعت تک کسی بھی عدد کو متعین کرکے پڑھنا ثابت ہے۔ البتہ تیرہ رکعت سے زیادہ پڑھنے کی صورت میں رکعات متعین کرنا صحیح نہیں ہے۔بلکہ بغیر تحدید جتنا میسر ہو پڑھتے رہیں ۔ کیوں کہ تیرہ رکعت سے زیادہ عدد کی تعیین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور بغیر دلیل کے عدد متعین کرنا اصول ستہ کے خلاف ہے۔جو ثابت شدہ عمل کو بدعت بنا دیتے ہیں۔ اور وہ چھ اصول یہ ہیں : (۱) سبب (۲) جنس (۳) کمیت (۴) کیفیت (۵) مکان (۶) زمان میں سے کوئی چیزبغیر دلیل کے اپنی طرف سے متعین نہ کریں۔
مسئلہ : پانچ رکعت ایک سلام سے پڑھنے کی صورت میں دوسری اور چوتھی رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لہذا نہ بیٹھنا افضل ہے۔ اور چوں کہ اصلا ہر ثنائی رکعت میں بیٹھنا جائز ہے، اس لئے بیٹھنے کا قول بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔البتہ تین رکعت ایک سلام سے پڑھنے کی صورت میں دوسری رکعت میں تشہد میں بیٹھنا مشروع نہیں ہے۔ اگر بیٹھے تو سلام پھیر دے۔
مسئلہ : تین رکعت وتر کو بہت سے علماء نے غیر مشروع قرار دیا ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے (لا توتروا بثلاث وأوتروا بخمس أو سبع ولا تشبهوا بصلاة المغرب) تین رکعت وتر نہ پڑھو، ایسا کرکے وتر کی نماز کو مغرب کی نماز کے مشابہ نہ بناؤ۔ ہاں ! پانچ رکعت یا سات رکعت کے ساتھ وتر کرو [ابن حبان، الدار قطنی، الموطأ بروایۃ محمد، والطحاوی وغیرہم]
لیکن اس حدیث کا مفہوم تین رکعت وتر کی عدم مشروعیت نہیں ہے،گرچہ اس کا منطوق ممانعت پر صریح ہے۔ کیوں کہ اس ممانعت کا سبب آخری جملہ ہے۔ یعنی مغرب کے مشابہ ہونا۔ تو جب یہ سبب زائل ہو جائے تو مسبب یعنی ممانعت بھی زائل ہو جائے گی۔ اور اس کی صریح دلیل آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: (الوتر حق، فمن شاء فليوتر بخمس، ومن شاء فليوتر بثلاث، ومن شاء فليوتر بواحدة) کہ وتر حق ہے۔ تو جو چاہے پانچ رکعت پڑھے، جو چاہے تین رکعت پڑھے اور جو چاہے ایک رکعت پڑھے [ابن ماجہ، وابن حبان، والحاکم والدارقطنی]
تو جو چاہے مغرب کی مشابہت سے بچتے ہوئے تین رکعت پڑھے۔اور تین رکعت وتر کو مغرب سے الگ کرنے کے لئے صرف دو راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ دوسری رکعت میں سلام پھیر دیں، پھر تیسری رکعت الگ سے پڑھیں۔ یہ ہر اعتبار سے افضل ہے۔ دوسرا یہ کہ تینوں رکعت ایک تشہد اور ایک سلام سے مکمل کریں۔ یعنی دوسری رکعت میں تشہد میں نہ بیٹھیں۔اس جگہ دوسری رکعت میں نہ بیٹھنے کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔
مگر دوسری پانچویں اور چھٹی کیفیتوں پر قیاس کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا اس قضیہ کا بہترین حل ہے۔اس طرح ممانعت اور اجازت والی دونوں روایتوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
بعض لوگوں نے دوسری رکعت میں بغیر سلام کے تشہد اول کو برقرار رکھتے ہوئے یہ حل نکالا ہے، کہ رکوع سے پہلے رفع الیدین کے ساتھ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ دوبارہ باندھ لے، پھر قنوت وتر کی دعاء پڑھے۔ مگراس کی بنیاد کمزور ہے۔ کیوں کہ بعض سلف سے قنوت وتر کی دعاء سے قبل اور بعد میں تکبیر کا کا ذکر تو ملتا ہے۔ مگر یہ قول مرجوح ہے۔ نیز رفع الیدین کا جو ذکر ملتا ہے، وہ تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھا کر دوبارہ باندھ لینا نہیں ہے۔ بلکہ قنوت وتر کی دعاء کے لئے ہاتھ اٹھا نا ہے، جو دعاء کے ساتھ بالاستمرار اٹھے رہیں گے ۔
علاوہ ازیں یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ کیوں کہ قنوت وتر کی دعاء کو کبھی کبھی چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔ تو جس دن قنوت وتر کی دعاء نہیں پڑھیں گے، اس دن مغرب کے ساتھ کون سا فرق رہ جائے گا۔ شاید اسی الزامی اشکال سے بچنے کے لئے کچھ لوگوں نے قنوت وتر کی دعاء کو ہی واجب کہہ دیا، جب کہ وجوب کے اصولی شرائط ہی متوفر نہیں ہیں۔بلکہ بالاستمرار ہمیشہ اس کی پابندی کرنا خلاف سنت، اور ترک کی سنیت کو نظر انداز کرنا ہوگا۔
مسئلہ : ایک رکعت وترکو کچھ لوگوں نے ناپسند کیا ہے۔ جب کہ مختلف احادیث سے صراحۃ ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ پہلی تیسری اور نویں کیفیت میں بھی ایک رکعت وارد ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ وتر کی ایک رکعت ہی پڑھتے تھے۔ اور جب ایک آدمی نے آپ سے وتر کی بابت سوال کیا، تو آپ نے اسے آخری ایک رکعت کو الگ سے پڑھنے کا حکم دیا۔ تو اس نے کہا مجھے ڈرہے کہ لوگ اسے البتیراء یا دم بریدہ نہ کہیں۔ تو ابن عمر نے کہا : کیا اللہ اور اس کے رسول کی سنتیں بھی بڑھتی ہیں، یہ اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے [أبو خزیمۃ وصححہ الألبانی]  لہذا اسے ناپسند کرنا، بتیراء دم بریدہ یا ادھ کٹی کہنا غلط ہے۔
مسئلہ : وتر کی آخری تین رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں (سبح اسم ربک الأعلی) دوسری میں (قل يا أيها الکافرون) اور تیسری میں (قل هو الله أحد) پڑھنا مسنون ہے۔ کبھی کبھی تیسری رکعت میں (قل هو الله أحد) کے ساتھ ساتھ معوذتین بھی پڑھنا ثابت ہے [أبو داوود، والترمذی، والنسائی، وابن ماجہ، والحاکم، وابن حبان والطحاوی]
بلکہ ایک بار تو آپ ﷺ سے وتر کی آخری رکعت میں سورہ نساء کی سو آیتیں پڑھنا بھی وارد ہے [النسائی وأحمد صححہ الألبانی]
مسئلہ : قنوت وترکی دعاء آخری رکعت میں رکوع سے قبل ہاتھ اٹھا کر پڑھنا مشروع ہے۔ اور پورے سال میں کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن بالالتزام وبالاستمرار ہمیشہ پڑھنا خلاف سنت ہے۔ اسی طرح رکوع کے بعد پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
قنوت وتر یہ دعاء پڑھی جائے گی: (اللهم اهدني فيمن هديت، وعافني فيمن عافيت، وتولني فيمن توليت، وبارک لي فيما أعطيت، وقني شر ما قضيت، فإنک تقضي ولا يقضی عليک، وإنه لا يذل من واليت، ولا يعز من عاديت، تبارکت ربنا وتعاليت، لا منجأ منک إلا إليک)  یہ دعاء رسول اللہ ﷺ نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو سکھایا تھا [أبو داوود والنسائی وغیرھما وصححہ الألبانی] رسول اللہ ﷺ سے عملی طور پر قنوت وتر کی دعاء یا اس کی کیفیت کے سلسلے میں کوئی تفصیل صریح اور صحیح طور سے وارد نہیں ہے۔ 
مسئلہ : اس دعاء میں اضافہ کرنا بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اور آپ کے دور میں مساجد کے ائمہ سے ثابت ہے۔ وہ کافروں پر لعنت بھیجتے، مومنین کے لئے دعاء کرتے، عام مسلمانوں کے لئے استغفار کرتے اور نبی ﷺ پر درود وسلام بھیجتے تھے۔ پھر اس اضافہ کا اختتام اس دعاء مأثور پر کرتے تھے (أللهم إياک نعبد ، ولک نصلي ونسجد، ، وإليک نسعی ونحفد، ونرجو رحمتک ربنا، ونخاف عذابک الجد، إن عذابک لمن عاديت ملحق) پھر تکبیر کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے [ابن خزیمۃ] پھر سلام پھیرنے سے پہلے یا سلام پھیرنے کے بعد یہ کہے (أللهم إني أعوذ برضاک من سخطک وبمعافاتک من عقوبتک وأعوذ بک منک لا أحصی ثناء عليک أنت کما أثنيت علی نفسک) [أبوداوود وصححہ الألبانی] اور جب سلام پھیر لے تو تین بار (سبحان الملک القدوس) کہے۔ تیسری بار آواز کو بلند کرے [أبو داوود وصححہ الألبانی]
مسئلہ : قنوت وتر کی دعاء گاہے بگاہے پورے سال میں کبھی بھی پڑھنا مشروع ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود، سفیان ثوری، ابن مبارک ودیگر اہل علم نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ اوریہی بات زیادہ صحیح ہے۔گرچہ اکثریت قنوت وتر کی دعاء کو صرف رمضان کی آخری پندرہ راتوں کے لئے خاص مانتے ہیں۔اس کے قائل خلفاء راشدین ، انس بن مالک، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم صحابہ میں سے، اور حسن بصری، امام شافعی، امام احمد ودیگر اہل علم ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قنوت وتر کی دعاء محض رمضان کی آخری پندرہ راتوں میں مشروع ہے۔باقی پورے سال میں نہیں۔ رکوع سے پہلے کا ثبوت متعدد صحابہ کے عمل ، اور بعض طرق میں مرفوعا رسول اللہ ﷺ سے ملتا ہے۔
اور ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنے کے قائل حضرت عبد اللہ بن مسعود، ابوھریرہ ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،نیز ابو قلابہ، مکحول، ابراہیم، سفیان اور امام احمد رحمہم اللہ وغیرہم ہیں۔ان سارے اختلافات کے باوجود یہ بات صریح ہے، کہ جس طرح کبھی کبھی قنوت وتر کی یہ دعاء پڑھنا سنت ہے۔ اسی طرح جان بوجھ کر کبھی کبھی اس کو چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔
تنبیہ : پورے سال میں ہویا رمضان کی آخری پندرہ راتوں میں،رکوع سے پہلے ہو یا رکوع کے بعد، ہاتھ اٹھا کر ہو یا بغیر ہاتھ اٹھائے،ہر حال میں یہ عمل ادا ہو جائے گا۔ مگر رمضان یا غیر رمضان میں کبھی کبھی ہاتھ اٹھا کر رکوع سے قبل پڑھنا افضل ہے۔البتہ ہاتھ نہ اٹھانے کی صورت میں ہاتھ کو سیدھا لٹکا دینا کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ نہ ہی یہ نماز کی ہیئت ہے۔ بلکہ اس دوران دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے پر رکھنا ہی نماز کی ہیئت بھی ہے، اور نماز کے لئے قیام کی حالت میں ہاتھوں کی صحیح جگہ بھی۔
وتر کے بعد نفل
پانچویں اور چھٹی کیفیتوں میں وتر کے بعد دو رکعت کا ذکر آیا ہے۔ اور یہ دونوں رکعتیں صحیح سند کے ساتھ نہ صرف ثابت ہیں، بلکہ آپ ﷺ نے اس کا حکم بھی دیا ہے (فإذا أوتر أحدکم فليرکع رکعتين فإن استيقظ وإلا کانتا له)  جب تم میں سے کوئی وتر پڑھ چکے، تو اسے دو رکعتیں پڑھ لینی چاہئے۔ اگر وہ قیام کے لئے جاگ سکا تو ٹھیک ہے۔ ورنہ یہ دو رکعتیں اس کے لئے قیام کے قائم مقام ہو جائیں گے [ابن خزیمۃ والدارمی وغیرہما وصححہ الألبانی]
 چنانچہ صحیح قول کے مطابق وتر کے بعد بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔آپ ﷺ کا فرمان (اجعلوا آخر صلاتکم بالليل وترا) کہ اپنی رات کی نمازوں کا اختتام وتر پر کرو [متفق علیہ] تخییر کے لئے ہے، نہ کہ وجوب کے لئے۔اس طرح دونوں حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ان دونوں رکعتوں میں سے پہلی رکعت میں (إذا زلزلت الأرض) اور دوسری رکعت میں (قل يا أيها الکافرون ) پرھنا مسنون ہے [ابن خزیمۃ وغیرہ وصححہ الألبانی]
دعاء قنوت وتر
وتر کی نماز میں دعاء قنوت وتر پڑھنا سنت ہے۔ اور صحیح روایات کے مطابق آخری رکعت میں رکوع سے پہلے پڑھنا افضل ہے۔اگر کوئی رکوع کے بعد پڑھتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اورجس طرح دعاء قنوت وتر کا پڑھنا سنت ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی جان بوجھ کر چھوڑ دینا بھی سنت ہے۔ اس دعاء کے لئے اللہ اکبر کہنے یا رفع الیدین کر کے دوبارہ باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ سورہ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورۃ پڑھیں۔ پھر دعاء قنوت شروع کردیں۔ اس دعاء میں اللہ کے رسول ﷺ سے ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے۔
البتہ آپ ﷺ سے قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا ثابت ہے۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے علماء قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانے کے قائل ہیں۔ نیز حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے قنوت وتر میں ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا بھی ثابت ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی بغیر ہاتھ اٹھائے دعاء کرتا چاہے، تو وہ بھی غلط نہیں۔ کیوں کہ اصلا رسول اللہ ﷺ سے اس دعاء میں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے۔ البتہ ہاتھ نہ اٹھانے کی صورت میں ہاتھوں کو چھوڑ دینا اور انھیں سیدھا لٹکا دینا کسی بھی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ نہ تو اس ارسال کی کوئی دلیل ہے، نہ ہی یہ نماز کی ہیئت ہے۔ بلکہ عام قاعدہ ہے کہ جب بھی نماز میں قیام کی حالت میں ہوں، تو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر ہونا چاہئے (مسند الامام أحمد )
عام حالت میں اصلی ہیئت ارسال اور ہاتھ لٹکانا ہے۔ مگر حالت نماز میں جب قیام ہو تو اصلی ہیئت ہاتھوں کو اپنے حال پر چھوڑ دینا نہیں، بلکہ دائیں کو بائیں پر سینہ پر رکھنا ہے۔
قنوت وتر کی مسنون دعاء جو رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو سیکھایا وہ یہ ہے (اللهم اهدني فيمن هديت وعافني فيمن عافيت وتولني فيمن توليت وقني شر ما قضيت فإنک تقضي ولا يقضی عليک وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت لا منجأ منک إلا إليک) [ ابن خزیمہ وأبوداوود والنسائی وابن ماجہ والدارمی وأحمد والحاکم وابن حبان وغیرہم]
اگر کوئی اسی پر اکتفاء کرتا ہے، تو یہ بہتر ہے۔ ااگر کسی نے مزید دوسری دعاؤں کا اضافہ کیا، تو کوئی حرج نہیں ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ائمہ مساجد سے کافروں پر لعنت مسلمانوں کے لئے مغفرت جیسی دعاؤں کا اضافہ کرنا ثابت ہے [قیام رمضان للألبانی]
درود شریف کی اہمیت کے پیش نظر آخر میں اسے بھی پڑھنا جائز ہے۔ بلکہ دعاء کی قبولیت کا امکان بڑھ جائے گا۔
واضح رہے کہ مأثور دعاؤں میں امام کے مفرد صیغے استعمال کرنے کی صورت میں مقتدیوں کی خیانت والی روایت [أبو داوود، الترمذی، ابن ماجہ، مسند أحمد، المعجم الکبیر والبیہقی] کے جملہ طرق یا تو منکر ہیں یا ضعیف۔ نیز رسول اللہ ﷺ کے عمل کے خلاف بھی۔ کیوں کہ آپ ﷺ نے پوری زندگی نماز پڑھائی، آپ امامت کے دوران سجدہ یا دوسجدوں کے درمیان یا دیگر دعاؤں میں ہمیشہ مفرد کا صیغہ ہی استعمال کرتے رہے۔اگر مقتدیوں کے آمین کہنے اور نہ کہنے میں فرق کرنا چاہیں، تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ نیز جب مقتدی آمین کہیں گے، تو خواہ صیغہ افراد ہو یا جمع ، وہ سب اس دعاء میں شریک ہو جائیں گے۔

اعتکاف کے آداب واحکام 
اعتکاف کسے کہتے ہیں ؟
اہل وعیال اور دنیا داری سے کنارہ کشی کر کے مخصوص ایام کے لئے مسجد میں مقیم ہو جانا اعتکاف کہلا تا ہے۔ کچھ شرعی حدود وآداب ہیں ، معتکف کو جن کی رعایت کرنی پڑتی ہے۔ان کی رعایت سے معتکف اور اس کے رب کے مابین قربت بڑھ جاتی ہے۔
اعتکاف کی اہمیت وفضیلت
رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ اعتکاف فرمایا۔ ایک بار پہلے عشرہ میں پھر درمیانی عشرہ میں، اور اس کے بعد آخری عشرہ میں، اور آخری عشرہ میں اعتکاف کا عمل ہی آپ ﷺ نے اپنی پوری زندگی جاری رکھا حتی کہ آپ رفیق اعلی سے جا ملے (متفق علیہ) ہمیشہ ایک عشرہ اعتکاف فرمايا كرتے، مگر اپنے آخری سال دو عشرہ اعتکاف فرما یا (البخاری) غالبا آپ ﷺ کی اسی مداومت اور مواظبت کے سبب علماء نے اعتکاف کو فرض کفایہ کہا ہے ۔ بہت سے اہل علم نے سنت کا درجہ بھی دیا ہے۔اور سنت کا قول ہی زیادہ واضح ہے۔
اعتکاف کا مقصد
اعتکاف کا مقصد آل واولاد اور دنیا داری کی مشغولیات سے خود کو فارغ کر کے اللہ کے ذکر واذکار تسبیح وتہلیل اور نوافل وتلاوت وغیرہ جیسی اہم عبادتوں میں مشغول ہو جانا ہے۔ اور ان مبارک گھڑیوں کو خالص دین کے لئے استعمال کرنا ہے، جو کہ غیر اعتکاف میں عموما اکثر لوگوں سے ضائع ہو جاتی ہیں۔ اعتکاف کے اہم ترین مقاصد میں سے شب قدر کی جستجو بھی ہے۔ جس میں عبادت کی قیمت ہزار مہینوں کی راتوں سے زیادہ بتائی گئی ہے۔
اعتکاف کے آداب
اعتکاف کے لئے نہ تو رمضان کا مہینہ ہونا شرط ہے، نہ حالت روزہ میں ہونا۔ اور نہ ہی وقت معین ہے۔ بلکہ دس روز سے کم بھی جتنا ممکن ہو سکے اس میں کوئی حرج نہیں۔لیکن رمضان کے مہینے میں زیادہ بہتر ہے۔ خاص طور سے آخری عشرہ مکمل کر سکے تو یہ رسول اللہ ﷺ کے دائمی عمل کی اتباع ہوگی ( متفق علیہ )
اعتكاف  کے لئے اکیسویں رمضان کو فجر کی نماز کے بعد  معتكف ميں داخل ہونامسنون ہے (متفق علیہ)  غیر رمضان میں بھی اگر اعتکاف کرنا چاہے، تو روزہ کی حالت میں ہونا مستحب ہے۔ سب سے بہتر بیت اللہ میں اعتکاف کرنا ہے، پھر مسجد نبوی، پھر مسجد اقصی اس کے بعد کوئی بھی جامع مسجداور پھر عموما کوئی بھی مسجد میں اعتکاف کرناہے۔بہتر ہوگا کہ مسجد کے اندر جہاں قیام کرنا چاہے، وہاں جگہ خاص کر لے یا خیمہ نصب کر لے۔ عورت بھی اپنے لئے مسجد میں خیمہ لگوا سکتی ہے ( متفق علیہ )
 اگر اعتکاف نذر مانا ہوا نہ ہو تو نیت کی مدت کے درمیان بھی توڑدینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلا ضرورت مسجد سے نکلنا صحیح نہیں ہے۔ بلکہ ان عبادتوں کے لئے بھی نہ نکلے جو اس پر فرض عین نہ ہوں۔ جیسے بیمار پرسی واتباع جنائز وغیرہ ( ابو داوود ) دنیاوی باتوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرے۔ اہل وعیال میں سے کوئی زیارت کے لئے آ جائیں تو ان سے بات کی جا سکتی ہے۔ بیوی سے ہمبستری ، اس کے مقدمات یا شہوت کے ساتھ ملامسہ حالت اعتکاف میں حرام ہے ( سورۀبقره ) 

لیلۃ القدر 
شب قدر کی فضیلت
اللہ تعالے کا فرمان ہے : ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارا ... نیز فرمایا : لیلۃ القدر کی ایک رات ہزار مہینے کی راتوں سے افضل ہے [سورۃ القدر] نیز رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایمان واحتساب کے ساتھ لیلۃ القدر میں قیام کیا، اس کے تمام گذرے گناہ مٹ گئے [بخاری ومسلم]
شب قدر کون سی رات ہے ؟
اللہ تعالے نے اس رات کو امت پر مخفی رکھی۔ اور اس کی بہت ساری حکمتیں ہیں۔ اور اگر لوگ تحدید کے ساتھ اس رات کو جان لیتے، تو صرف اسی ایک رات پر اعتماد کرکے رمضان کی باقی راتوں میں قیام نہیں کرتے۔ باختلاف تحدید مختلف روایتیں وارد ہیں۔ نیز امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس رات کی تعیین میں علماء کے چالیس سے زیادہ اقوال نقل کئے ہیں۔بیشتر روایتوں میں ستائیسویں کی شب کا ذکر ہے۔ جسے بعض صحابہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ اسی طرح تئیس، پچیس انتیس اور اکیس کے اقوال بھی ملتے ہیں۔ مگر ان سب میں جو بات سب سے قریب لگتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ رات ہر سال بدلتی رہتی ہے۔ کسی سال ستائیسویں کو، کسی سال تئیسویں کو، اور کسی سال رمضان کے شروع میں اور کبھی آخر میں۔ لیکن زیادہ تر رمضان کے آخری عشرہ میں واقع ہوتی ہے۔ اس میں بھی طاق راتوں میں، اور ان میں بھی ستائیسویں اور تئیسویں میں۔اس لئے بہتر ہے کہ رمضان کی پوری راتوں میں قیام کریں۔ یہی اس رات کو مخفی رکھنے کا راز بھی ہے۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو آخری مکمل عشرہ میں۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اس رات کو تلاش کریں۔
شب قدر کے علامات
لیلۃ القدر کی علامت یہ ہے کہ اس رات موسم خوش گوار اور معتدل رہے گا۔ نہ ٹھنڈی ہوگی نہ گرمی۔ اسی طرح آسمان بالکل صاف رہے گا۔ اور ہلکی بارش ہو تو یہ بھی اس کی علامات میں سے ہے۔بعض روایتوں میں ہلکے بادلوں کا ہونا بھی بتایا گیا ہے۔
شب قدر کی دعاء
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت فرمایا کہ اگر ہم میں سے کسی کو لیلۃ القدر مل جائے تو اسے کیا کرنا چاہئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ دعاء پڑھو : (اللهم إنک عفو تحب العفو فاعف عني) (الترمذی والنسائی وابن ماجہ وأحمد)

صدقۃ الفطر کے آداب واحکام 
صدقہ فطر کا حکم
صدقہ فطر ادا کرنا فرض ہے۔ اور اس کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ہر نفس کی طرف سے ادا کیا جائے گا، مرد ، عورت، بوڑھے، بچے، آزاد اور غلام حتی کہ نو مولود جو چاند نظر آنے سے قبل پیدا ہوا ہواس کی طرف سے بھی ادا کرنا فرض ہے۔
صدقہ فطر کا مقصد
صدقہ فطر کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ادا کرنے والے کے روزوں میں یا اس مہینے کے حقوق وواجبات میں جو کچھ سہو ونسیان یا تقصیر سرزد ہوئی ہے، اس کو دور کرے، اور جنھیں فقرو فاقہ جھیلنا پڑ رہا ہے، ان کو کھانا میسر ہو جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (زکاة الفطرطهره للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساکين)  کہ صدقۃ الفطر روزہ دار کو اس کے بیکار اور بے ہودہ قسم کے عمل سے پاک کرنے والا ، اور مسکینوں کے لئے کھانا ہے [أبوداوود وابن ماجہ والحاکم الدارقطنی والبیھقی]
صدقۃ الفطر یتیموں، مسکینوں، بیواؤں، ناداروں ، غریبوں، بے کسوں اور محتاجوں کے ساتھ ہمدردی واظہار یکجہتی کرنا، اور انھیں عید کی خوشیوں میں شریک کرنا۔تاکہ جن کے پاس کھانے پینے کے لئے نہ ہو وہ اس میں سے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے سامان فرحت مہیا کر سکیں۔ 
صدقۀ فطر کا وقت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (من أداها قبل الصلاة فهي زکاة مقبولة ومن أداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات)  کہ جسنے نماز عید سے قبل ادا کردیا تو وہ معتبر اور مقبول صدقہ فطر ہے، اور جس نے نماز عید کے بعد ادا کیا، وہ عام صدقہ ہے [أبوداوود وابن ماجہ والحاکم الدارقطنی والبیھقی]
معلوم ہوا کہ صدقہ فطر ادا کرنے کا آخری وقت نماز عید ہے۔ اس کے بعد ادا کیاگیا صدقہ فطر عام صدقہ میں بدل جاتا ہے۔اس کے ادائیگی کے لئے اول وقت کی تحدید نہیں کی گئی ہے۔ البتہ افضل وقت شوال کا چاند نظر آنے کے بعد سے نماز عید کے لئے نکلنے تک کا وقفہ ہے۔ اگر اس سے ایک دو روز قبل ادا کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ تاکہ مستحقین میں اسے اپنے کام میں لگا سکیں، یا وہ اس سے اپنا صدقہ فطر ادا کر سکیں۔ سلف سے اٹھائیس اور انتیس کو ادا کرنا وارد ہے۔
صدقۀ فطر کیا اور کتنا واجب ہے ؟
اناج ہونا ضروری ہے، نقدی سے ادا نہ ہوگا، ایک صاع جو تقریبا تین کلو گرام کے مساویہے۔صدقہ فطر کا اصل مکیل ہے نہ کہ موزون، اسی لئے جنس کے اعتبار سے وزن بھی مختلف ہو جائے گا۔اگر کوئی گندم دے رہا ہے، تو مکیل میں تین کلو کے قریب ہوگا، جب کہ انگور ادا کرنے سے وزن تین کلو نہیں رہے گا۔ جو لوگ اہل وعیال سے دور پردیش میں مقیم ہیں وہ اپنی جگہ پر جمع کریں تو افضل ہے، اگر گھر والوں نے ادا کر دیا تو کافی ہو جائے گا۔ کئی لوگ مل کر صدقہ فطر کسی ایک کو بھیجنا چاہیں، تو ایسا کرنا بھی غلط نہیں ہوگا۔ البتہ اپنے علاقہ کے مستحقین اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ اگر کوئی غیر وارث رشتہ دار مستحق ہو، تو اسے بھی دیا جا سکتا ہے۔

عیدکے احکام ومسائل 
تکبیرات عید
جب رمضان المبارک کا مہینہ مکمل ہوگیا۔ اور اس کے صیام وقیام کی میعاد پوری ہو گئی۔ تو اللہ تعالے نے امت کو جو توفیق بخشی اس کے شکر میں اللہ کی بڑائی بیان کی جائے۔ اسی اظہار شکر کے لئے عید کا دن ہے۔  الله تعالے نے فرمايا:  ﴿وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [ سورۀ بقره: ۱۸۵ ]  ترجمه معاني:  وه چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر کرو۔
عید ین کی تکبیرات کے لئے رسول اللہ ﷺ سے کوئی خاص الفاظ وارد نہیں ہیں۔ البتہ صحابہ کرام اور سلف صالحین مختلف الفاظ سے اللہ تعالے کی بڑائی بیان کیا کرتے تھے۔ ان میں سے یہ بھی ہیں (الله أکبر الله أکبر لا إله إلا الله والله أکبر الله أکبر ولله الحمد) [ ابن أبی شیبہ عن عبد اللہ ابن مسعود باسناد صححہ الألبانی ] اور (الله أکبر کبيرا والحمد لله کثيرا وسبحان الله بکرة وأصيلا) نیز (الله أکبر الله أکبر الله أکبر لا إله إلا الله الله أکبر الله أکبر ولله الحمد ) [ مصنف ابن أبی شیبہ عن ابن مسعود وابن عباس رضی اللہ عنہما بسند صحیح ]
واضح رہے کہ تکبیرات عید اجتماعی شکل میں نہیں ہونی چاہئے، بلکہ ہر ایک انفرادی طور پر علیحدہ علیحدہ پڑھیں گے۔ کیوں کہ اس اجتماعیت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور بغیر دلیل کے اپنی طرف سے عدد کیفیت زمانہ یا جگہ وغیرہ متعین کرنا بالخصوص عبادتوں میں ناجائز ہے۔ تکبیرات کا وقت عید کی رات غروب آفتاب سے لے کر نماز عید تک ہے۔ گھر میں بازاروں میں راستوں میں چوراہوں اور گلیوں وغیرہ جہاں کہیں بھی ہوں پڑھتے رہیں ( الامام البغوی) 
نماز عید کا حکم
نماز عید کا حکم بہت سے علماء نے فرض کفایہ کہا ہے۔ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دلائل کی روشنی میں فرض عین کا قول زیادہ واضح ہے (فتاوی الطہارۃ والصلاۃ لابن باز)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، نیز شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کی عید کی نماز فوت ہو جائے، تو جمعہ کی طرح اس کی قضاء نہیں ہے، نہ ہی اس کے بدل میں کوئی نماز ہے۔ ضرورت پڑنے پر ایک ہی شہر میں ایک سے زیادہ جماعتیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ تاکہ یہ فریضہ کسی سے بھی فوت نہ ہو جائے۔
عورتوں کا عید گاہ جانا
عورتیں مردوں کی طرح عید گاہ جائیں گی۔ اس دوران انھیں پردہ کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ نیز اپنے زیب وزینت کے اظہار کرنے ،خوشبو لگا کر جانے اور اختلاط مرد وزن سے بچنا ضروری ہوگا۔ جن کے پاس دوپٹہ یا برقعہ نہ ہو وہ اپنی سہیلی سے عاریۃ لے کر جائے گی۔ حتی کہ اگر کوئی ماہواری دورہ کی حالت میں ہو، تب بھی عید گاہ جائے گی، البتہ نماز کے وقت پیچھے بیٹھی رہے گی (متفق علیہ)
الغرض حالت حیض میں ہونا یا دوپٹہ کا نہ ہونا معتبر عذر نہیں ہے۔ اس بات سے عورتوں کے لئے عید گاہ جانے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ 
عید گاہ جانے آنے کے آداب
مرد بلند آواز سے تکبیرات کہتے ہوئے (الدار قطنی) سکون ووقار کے ساتھ عید گاہ جائیں گے۔ اور عورتیں پردہ کے اہتمام کے ساتھ، بغیر عطر لگائے، تکبیرات آہستہ کہتی ہوئی جائیں گی۔ پیدل چل کر عید گاہ جانا چاہئے (الترمذی) اگر کوئی عذر ہو تو سواری کا استعمال جائز ہے۔ جس راستہ سے جائیں اس سے بدل کر مخالف راستہ سے واپس آئیں (البخاری)
راستہ میں یتیموں بے کسوں ناداروں اور حاجت مندوں سے ہمدردی کرنا، حتی الامکان انھیں اپنی خوشیوں میں شریک کرنا، صدقہ وخیرات کرنا اس دن کا تقاضہ ہے۔

نماز عید اور خطبہ
عیدین کا اہتمام 
عید ین اور نماز کے اہتمام میں غسل کرنا،نئے یا اچھے کپڑے پہننا مستحب ہے (مؤطا مالک ومسند الشافعی ومسند عبد الرزاق وانظر فتح الباری وزاد المعاد ) مردوں کے لئے عطرملنا بھی مستحب ہے ۔عید فطر میں اگر کھجور میسر ہو تو بے جوڑ کھا کر عید گاہ کے لئے روانہ ہونا چاہئے، البتہ عید اضحی میں بغیر کچھ کھائے جانا چاہئے ، اور نماز عید سے فراغت کے بعد قربانی کرے، پھر اس قربانی میں سے اس دن کا کھانا پینا شروع کرے (البخاری)
عیدین اور جمعہ کے لئے اگر کوئی خاص لباس رکھا جائے جو صرف انھیں دنوں میں زیب تن کیا جائے تو بھی صحیح ہے (ابن خزیمہ) عورتیں بغیر خوشبو لگائے عبایہ یا چادروں میں لپٹی ہوئی پردہ کے اہتمام کے ساتھ جائیں گی۔ اور شرعی آداب کا پورا خیال رکھیں گی۔
عیدین کی نماز کب اور کہاں ؟ 
شروق کے بعدسے زوال تک اس کا وقت ہے، اور افضل وقت چاشت کا وقت ہے (متفق علیہ) زوال کے بعد معلوم ہو تو روزہ توڑ دیں گے، مگر نماز عید قضاء ہو جائے گی، اور ایسی صورت میں دوسرے دن صبح پڑھی جائے گی (اہل السنن بیہقی نووی اور ابن حجر وغیرہم نے اس کو صحیح کہا ہے) آبادی سے باہر عید گاہ میں ادا کریں ( متفق علیہ)
اگر کوئی مانع ہوتو مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے۔اگر کسی کی عید کی نماز فوت ہو جائے توشیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گھر میں پڑھ لینا درست ہے۔اگر کئی عورتیں ہوں جن کی عید کی نماز کسی وجہ سے فوت ہو گئی ہو، یا کسی عذر کے سبب عید گاہ نہ جا سکی ہوں، تو چوں کہ عورت کی امامت عورتوں کے لئے جائز ہے، اس لئے وہ عید کی نماز بھی گھر میں باجماعت پڑھ سکتی ہیں۔ البتہ عورت کا خطبہ چوں کہ صحیح نہیں ہے، اس لئے وہ خطبہ نہیں پڑھیں گی۔البتہ شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کی بات زیادہ واضح لگتی ہے، جو کہتے ہیں کہ جمعہ کی طرح عیدین کی نماز فوت ہو جائے تو اس کی قضاء نہیں ہے، نہ ہی اس کے بدل میں کوئی نماز ہے۔ کیوں کہ اس کی کوئی صریح وصحیح دلیل نہیں ہے۔ البتہ جمعہ کی نماز فوت ہونے پر ظہر کی نماز اس کا بدل ہے (فتاوی ارکان الاسلام)
کیفیت نماز عید 
عید کے خطبہ سے پہلے نماز عید ادا کی جائے گی (مسلم) عید کی نماز بغیر اذان اور بغیر اقامت کے دو رکعت ہے ( ابوداوود) کل بارہ زائد تکبیرات پڑھی جائیں گی،پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ (ابوداوود) پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد سات ،اور دوسری رکعت میں قیام کی تکبیر کے علاوہ قراء ت سے پہلے پانچ تکبیریں کہی جائیں گی (اصحاب السنن) 
پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ (ق والقرآن المجيد) اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ( اقتربت الساعۃ وانشق القمر ) پڑھنی چاہئے ( مسلم) یا پہلی رکعت میں ( سبح اسم ربک الأعلی) اور دوسری رکعت میں ( هل أتاک حدیث الغاشية) پڑھنی مسنون ہے (ابن ماجہ)
اگر عید جمعہ کے دن پڑ جائے ، تو جس نے عید کی نماز باجماعت ادا کر لی ہو اسے اختیار ہے۔چاہے تو جمعہ کی نماز پڑھے، اور چاہے تو ظہر کی نماز پڑھ لے۔ مگر جمعہ کی نماز ادا کرنا ہی افضل ہے (ابو داوود)
عید گاہ میں نماز عید سے قبل اور نماز عید کے بعد کوئی نماز نفل وغیرہ مشروع نہیں ہے ( متفق علیہ) البتہ نماز عید اگر مسجد میں ادا کرنی ہو، تو مسجد میں داخل ہونے کے بعد تحیۃ المسجد پڑھنا یا سبب والی نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
عیدین کا خطبہ 
عیدین کی نماز یا خطبہ کے لئے اذان یا اقامت مشروع نہیں ہے (متفق علیہ) عیدین کے خطبہ کے لئے منبر کا استعمال غیر مشروع اور بعد کے خلفاء کی ایجاد کردہ بدعت ہے (متفق علیہ) عیدین کا خطبہ نماز عید کے بعد مشروع ہے ( متفق علیہ) جس میں تمام اہم موضوعات پر امت کی رہنمائی کی جائے گی (متفق علیہ) عورتوں کے لئے خصوصی توجیہات اور ان کے مسائل کی وضاحت پر مشتمل ہونا چاہئے (متفق علیہ) کوئی اہم فیصلہ بھی خطبہ کے بعد کیا جانا مناسب ہے (متفق علیہ)
عید کے لئے خطبہ ایک ہوگا یا دو، اس بارے میں کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ سلف صالحین کا عمل دو خطبہ پر رہاہے۔اگر کسی وجہ سے خطبہ چھوٹ جائے تو عید کی نماز بہرحال ہو جائے گی۔ کیوں کہ خطبہ عیدین سنت ہے۔ اسی لئے خطبہ جمعہ کے بر خلاف اس کا سننا واجب نہیں ہے۔ ان خطبوں کی شروعات تکبیرات سے کی جائے گی، اور دوران خطبہ بکثرت تکبیرات پڑھی جائیں گی۔
ایک دوسرے کی زیارت 
عید کے اعمال سمجھتے ہوئے خطبے کے بعد معانقہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ اگرعام دنوں کی طرح کوئی سفر سے واپس آئے، اور اتفاقا عید کے روز ہی اس سے ملاقات ہو جائے، تو معانقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے (ابو داوود) ایک دوسرے کی زیارت بھی عام دنوں کی طرح سے جائز ہے۔ خاص طور سے والدین ، بھائی بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کی زیارت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ایسی مناسبتوں میں ایک دوسرے کو تہنیت اور مبارکبادی کے ایسے جملوں کا تبادلہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو در اصل قبول اعمال اور توفیق کی دعائیں ہوتی ہیں۔
حضرت ابو امامۃ الباھلی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام عید کے دن ایک دوسرے سے ملتے تو ( تقبل اللہ منا ومنک ) کہا کرتے تھے ( ابن الترکمانی نے اس حدیث کو اور امام احمد نے اس کی سند کو جید کہا ہے: انظر الجوہر النقی ۳/ ۳۲۰ ) 
عید کی خوشیاں 
عید کا دن کھانے پینے اور خوشیاں منانے کے لئے ہے (ابو داوود) اسی لئے اس دن روزہ رکھنا منع ہے (متفق علیہ) مباح اور جائز قسم کے کھیل کود میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح ان کا مشاہدہ کرنا بھی جائز ہے۔ دیکھنے والی اگر عورت ہو تو پردہ کا خاص خیال رکھے (البخاری)
حمد نعت ترانے اور نظمیں اگر غلو واطراء اور غیر مناسب کلمات سے پاک ہوں تو پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے (متفق علیہ) حمد باری تعالے یا نعت رسول ﷺ یا دیگر اسلامی اچھی نظمیں وغیرہ پڑھنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے (متفق علیہ)
عید کے دنوں میں عید کی خوشیاں منانا دین کے شعائر میں سے ہے (فتح الباری) ان تمام امور میں شرعی ضابطوں اور آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
عید کا پیغام 
عیداور عید کی خوشیاں اس کے لئے ہے جو رمضان کے خیر وبرکات سے محظوظ ہو سکا۔عید کا یہی پیغام ہے کہ جو شخص پوری زندگی طاعت میں گذارے اس کے لئے پوری زندگی عید ہے۔ عید کا دن ہم سے یہ بھی کہتا ہے کہ رمضان تو ٹریننگ کا مہینہ تھا۔ اب باقی گیارہ مہینے عملی تطبیق کی باری ہے۔ لہذا اس کے لئے تیار ہو جاؤ ۔
اللہ تعالے کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا[سورۀ نحل:۹۲]  ترجمه معاني: اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا۔
ایسا نہ ہو کہ ایک ایک دھاگہ پرو کر تیار کرنے کے بعد اس کپڑے کے شاخ وبن کو ادھیڑ ڈالو۔ جو کچھ تم نے رمضان کے مہینے میں کمایا، اسے محفوظ رکھنے کے لئے باقی کے گیارہ مہینے بھی اسی طریقے پر چلنے ہوں گے۔رب کا فرمان ہے: ﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ [ سورۀ حجر: ۹۹ ] ترجمه معاني: اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔
لہذا اس طریقہ کو پوری زندگی جاری رکھنا ہی دونوں جہان کی کامیاب ترین اور حقیقی عیدیں ہیں۔حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کے ضمن میں فرمایا ہے ، کہ اللہ تعالے نے مومن کے کسی بھی عمل کے لئے سوائے موت کے کوئی اکسپائری ڈیٹ نہیں رکھی ۔عید کا دن ہر اس آدمی کو اس کی غلط فہمی کا ازالہ کرتا ہے، جو روزہ نماز یا دیگر عبادات کے لئے مخصوص اور محدود ایام ہی کو ضروری سمجھتا ہے۔ ہفتہ میں صرف جمعہ کی نماز پڑھ لی، یا سال میں صرف رمضان کا صیام وقیام کر لیا ، یا سال بھر میں محض عیدین کی نماز پڑھ لی اور بس۔عید کا دن ہمیں مسلمانان عالم کے ساتھ اظہار یکجہتی کی بھی دعوت دیتا ہے۔ اخوت اسلامیہ کو قائم کرنے اورحتی الامکان ان کے حقوق کی ادائیگی کا تقاضہ کرتا ہے۔
شوال کے چھ روزے 
رمضان کے بعد شوال کے چھ روزوں کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے پورے کر لئے ، پھر شوال کے چھ روزے رکھے، گویا کہ اس نے زندگی بھر روزہ رکھا (مسلم)
چوں کہ اللہ تعالے ایک نیکی کو دس گنا تک بڑھا تا ہے، تو اس اعتبار سے رمضان کے ایک مہینہ کا روزہ دس مہینے کے برابر ہوا۔ اور شوال کے چھ روزے ساٹھ روزوں کے مساوی قرار پائے، جو کہ دو مہینے بنتے ہیں۔ اس طرح دس اور دو بارہ مہینے ہو گئے۔ اگر کوئی ہر سال رمضان کے روزے پورا کرنے کے بعد شوال کے ان روزوں کا اہتمام کرتا ہے،تو ثواب کے اعتبار سے گویا اس نے زندگی بھر روزہ رکھا۔یہ روزے شوال کے پورے مہینے میں کبھی بھی پورے کئے جا سکتے ہیں۔ عید کے دوسرے دن سے ہی شروع کرنا ضروری نہیں ہے۔
خاتمہ
الله تعالے تمام مسلمانوں كو ماه رمضان المبارك كےفيوض وبركات سے پوري طرح محظوظ فرمائے۔ هم سب كے نيك اعمال كو قبول فرمائے۔ اور ماه رمضان كےختم هونے سے پهلے هم سب كي گردن كو جهنم سے آزاد كر دے۔  آمين


از رشحات قلم
عبد الله الكافي المحمدي
داعيه ومترجم شعبۀ جاليات دعوه سينٹر محافظه تيماء
وزارت برائے اسلامي امور واوقاف سعودي عرب
بتاريخ:  09/ شعبان  ۱۴۲6 ھ موافق:  12 / ستمبر  2005ء    بروز سوموار