بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہدیہ دعویہ
منجانب شعبہ جالیات
مکتب تعاونی برائے دعوت وارشاد تیماء
حج وعمرہ
کا مسنون طریقہ
جمع و ترتیب :
أَبُوْ مُحَمَّدْ عَبْدُ اللّہ الکَافِیْ المُحَمَّدِیْ
خریج کلیۃ الحدیث الشریف والدراسات الإسلامیۃ
بالجامعۃ الإسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ
داعیۃ ومترجم
فی قسم الجالیات بالمکتب التعاونی للدعوۃ والإرشاد
وتوعیۃ الجالیات بمحافظۃ تیماء
ناشر :
المکتب التعاونی للدعوۃ والإرشاد وتوعیۃ الجالیات
بمحافظہ تیماء ص ب : ۱۹۵ منطقۃ تبوک
المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
ٹیلیفون نمبر ۴۶۳۱۰۹۵؍۰۴ فاکس نمبر ۴۶۳۲۴۹۲؍۰۴
أَبُوْ مُحَمَّدْ عَبْدُ اللّہ الکَافِیْ المُحَمَّدِیْ
خریج کلیۃ الحدیث الشریف والدراسات الإسلامیۃ
بالجامعۃ الإسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ
داعیۃ ومترجم
فی قسم الجالیات بالمکتب التعاونی للدعوۃ والإرشاد
وتوعیۃ الجالیات بمحافظۃ تیماء
ناشر :
المکتب التعاونی للدعوۃ والإرشاد وتوعیۃ الجالیات
بمحافظہ تیماء ص ب : ۱۹۵ منطقۃ تبوک
المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
ٹیلیفون نمبر ۴۶۳۱۰۹۵؍۰۴ فاکس نمبر ۴۶۳۲۴۹۲؍۰۴
حج وعمرہ کی فرضیت
اللہ تعالے کا ارشادہے : ( ولله علی الناس حج البیت من استطاع إلیه سبیلا) اور جو لوگ بیت اللہ تک پہونچنے کی طاقت رکھتے ہوں، ان پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے [آل عمران : ۹۷] اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (بنی الإسلام علی خمس ۔۔۔ وحج البیت ) اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ۔۔۔ بیت اللہ کا حج کرنا [البخاری ومسلم]
حج اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے، اور اس کی فرضیت پر امت کا اجماع ہے۔ بیت اللہ تک راستہ پر امن ہو، اور زاد راہ کے سوا واپسی تک گھر والوں کے لئے کافی ہونے والا مال ہو، تو زندگی میں ایک بار فرض ہوتا ہے۔ اور فرض ہونے کے بعد بلا سبب اس کی ادائیگی میں تاخیر کرنا صحیح نہیں ہے۔ صحت وتندرستی میں خلل ہو تو بدل کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔عورت کو جب تک شوہر یا کسی محرم رشتہ دار کا ساتھ نہ ملے، حج فرض نہیں ہوتا۔ گرچہ والدہ وبہنیں وغیرہ ساتھ کیوں نہ ہوں، جب تک محرم مرد یا شوہر ساتھ نہ ہو، وہ حج یا عمرہ کے لئے سفر نہیں کرے گی۔کیوں کہ تین دن اور تین رات کی مسافت بغیر محرم رشتہ دار کے سفر کرنا عورت پر حرام ہے [متفق علیہ] اور اس حکم میں بوڑھی عورتیں بھی شامل ہیں۔ حتی کہ وہ عورت بھی اس حکم میں شامل ہے، جسے محرم نے ایئرپورٹ تک چھوڑ آیا ہو، اور دوسرے ایئرپورٹ پر شوہر یا دوسرے محرم نے استلام کر لیا، کیوں کہ اس میں کئی طرح کے امکانیات ہیں۔ اگر کوئی عورت بغیر محرم کے حج یا عمرہ کر لیتی ہے، تو اس کا حج یا عمرہ صحیح ہو جائے گا، مگر اس کا یہ کام حرام ہوگا۔ غیر مکلف بچوں کی طرف سے ان کے ولی نیت کریں گے۔ واضح رہے کہ مناسک میں داخل ہونے کے بعد محظورات احرام وغیرہ تمام احکام میں وہ مکلف ہی کی طرح ہوں گے۔ اور طواف، سعی، وقوف عرفہ، مبیت منی ومزدلفہ وغیرہ سارے کام انھیں خود کرنا پڑے گا، سوائے ان کاموں کے جن میں نیابت جائز ہے، جیسے رمی جمرات اور قربانی وغیرہ۔ البتہ طواف وسعی میں پریشانی ہو تو انھیں اٹھا کر طواف وسعی کرایا جائے گا۔ایسی صورت میں انھیں طواف وسعی کرانے والا خود اپنی طرف سے بھی طواف وسعی کی نیت کر لے تو کافی ہو جائے گا، یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے بچے کے حج کے سلسلے میں دریافت کرنے والی عورت کو الگ سے طواف وسعی کرنے کا حکم نہیں دیا تھا [ البخاری ومسلم ] اگر نفلی حج کرنے کے بعد کبھی کسی پر حج فرض ہوا، تو اسے دوبارہ حج کرنا ہوگا، کیوں کہ پہلے کا نفلی حج بعد کے فرض حج کو ساقط نہیں کرتا ہے۔
عمرہ صحیح قول کے مطابق سنت ہے، گرچہ بہت سے علماء نے اسے بھی متوفر الشروط کے لئے فرض کہا ہے۔ لیکن حج ہو یا عمرہ، نفلی ہوں یا فریضہ، بہر حال مناسک میں داخل ہونے کے بعد اسے پورا کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالے کا فرمان ہے (وأتموا الحج والعمرۃ للہ) حج اور عمرہ کو (جب احرام میں داخل ہو چکو تو لازما) اللہ کے لئے پورا کرو [البقرۃ :۱۹۶ ]
حج وعمرہ کی فضیلت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ کرنا گناہ معاف ہونے کا سبب بنتا ہے، اور حج مقبول کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں [البخاری ومسلم] مقبول حج وہ ہوتا ہے، جو سنت کے مطابق ہو اور گناہوں وبرائیوں سے پاک ہو۔ نیز فرمایا : جو شخص بیہودہ باتوں اور گناہوں سے دور رہتے ہوئے حج کرتا ہے، وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوکر لوٹتا ہے جیسے آج ہی اسے اس کی ماں نے جنم دیا ہو [البخاری ومسلم] انھیں فضیلتوں کو حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (تابعوا بین الحج والعمرۃ فإنہما ینفیان الذنوب کما ینفی الکیر خبث الحدید) کہ حج وعمرہ ایک کے بعد دوسرا کیا کرو، کیوں کہ یہ دونوں گناہوں کو ایسے مٹاتے ہیں، جیسے آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ کو [أخرجہ النسائی وصححہ الألبانیؒ ]
حج کے اقسام
حج تین طرح کے ہوتے ہیں : (۱) حج تمتع (۲) حج قران (۳) حج افراد
حج تمتع : وہ حج ہے جس میں حاجی مکمل عمرہ ادا کرنے کے بعد حلال ہوجاتا ہے۔ اور آٹھویں ذی الحجہ کو اپنی رہائش ہی سے دوبارہ احرام باندھ کر منی پہونچتا ہے، اس حج میں دو طواف دو سعی اور قربانی ہے
حج قران : وہ حج ہے جس میں حج اور عمرہ دونوں ایک دوسرے میں داخل ہیں، اس لئے دسویں ذی الحجہ کو کوئی بھی تین کام کرنے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے،اس حج میں ایک طواف ایک سعی اور قربانی ہے
حج افراد : وہ حج ہے، جس میں حاجی صرف حج کرتاہے، عمرہ نہیں۔ اور اس میں بھی دسویں ذی الحجہ کو کوئی بھی دو کام کرنے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے۔ اس میں ایک طواف ایک سعی ہے۔ جب کہ قربانی ضروری نہیں، اگر کوئی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
ان تینوں میں سے کسی بھی قسم کے تحت ادا کرلیا جائے تو خواہ فریضہ ہو یا نافلہ، اپنا ہو یا کسی کا بدل ،حج ادا ہو جاتا ہے۔ لیکن ان تینوں میں عموما سب سے افضل حج تمتع ہے۔ کیوں کہ اس میں حج وعمرہ دونوں کا ثواب ہے، نیز رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو حج تمتع کرنے کا حکم دیا تھا، بلکہ جنھوں نے قران کا ارادہ کیا تھا، مگر قربانی کے جانور ساتھ نہیں لا سکے تھے، یا جنھوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا، انھیں تمتع سے بدل لینے کا حکم دیاتھا [أبوداوود] نیز فرمایا : اگر میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا، تو میں بھی حج تمتع ہی کرتا [أبوداوود] نیز اس حج میں لوگوں کے لئے آسانی ہے، کیوں کہ آٹھویں ذی الحجہ تک بحالت احرام رہنا، خصوصا جو حج کے ابتدائی مہینوں میں ہی مکہ آنا چاہیں، ان کے لئے بڑی مشقت ہے۔البتہ چوں کہ اللہ تعالے نے اپنے رسول کے لئے حج قران کو پسند کیا، جیسا کہ اکثر روایتوں سے ثابت ہوتا ہے، نیز اس میں بھی حج وعمرہ دونوں کا ثواب ہے، لہذا دونوں قسم کی حدیثوں کو تطبیق دیتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا، کہ جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوں، ان کے لئے حج تمتع افضل ہے۔ اور جن کے ساتھ قربانی کے جانور ہوں، ان کے لئے حج قران افضل ہے۔رہا حج افراد، تو وہ تیسرے درجہ میں ہے۔
مقدمات حج وعمرہ
بہت سے لوگ حج وعمرہ کو اپنی آخری عمر تک مؤخر کرتے ہیں۔تاکہ آخری دم تک وہ اپنے حج کی صحیح حفاظت کر سکیں۔ اور حج وعمرہ کے بعد تجارت وزراعت یا دیگر دنیاوی مشاغل سے خود کو کاٹ لیتے ہیں۔ اگر مذکورہ اعمال شرعی ضابطوں کے خلاف ہیں، تو ہرحال میں انھیں ترک کر دینا چاہئے، خواہ حج سے پہلے ہو یا بعد میں۔ اور اگر شرعی اصول کے منافی نہیں ہیں، تو حج وعمرہ کے بعد بھی دنیاوی کام کاج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جوانی میں کی گئی عبادت کا اپنا مقام ہے۔بالخصوص حج وعمرہ جس میں ڈھیر ساری صعوبتیں اور مشقتیں جھیلنی پڑتی ہیں، جنھیں ایک تندرست اور جوان آدمی ہی زیادہ بہتر طریقہ سے انجام دے سکتا ہے۔ اس لئے اپنی صحت وتندرستی اور جوانی کوغنیمت سمجھ کر عام عبادتوں کی طرح حج وعمرہ کے لئے بھی استعمال کرنا چاہئے۔ خصوصا اگر حج فرض ہے تو تاخیر بالکل نہیں کرنی چاہئے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اگر والدین نے حج نہیں کیا ہے تو بیٹے کو اپنے والدین سے پہلے حج نہیں کرنا چا ہئے،جب کہ یہ غلط ہے۔ جب جس کو موقع مل جائے حج کر لینا چاہئے۔ پھر جب موقع ملے تو والدین کو بھی حج کرا دے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے والدین یا بیوی سے حج کے لئے اجازت لینی چاہئے۔ یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی خبر دے دینا چاہے، اور اس سے اس کا مقصد ریا ونمود وغیرہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔اسی طرح اگر کوئی کسی کی طرف سے حج بدل کر رہا ہے، تو اسے بتادینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے اپنی نیت درست کر ے۔ ریاء و سمعہ، یا ان جیسے غلط خیالوں سے اپنے دل کو پاک کرلے۔ اور اس اہم عبادت کو خالص اللہ کی رضاء کے لئے کرنے کا ارادہ کرے، اور اس ارادے میں اللہ تعالے سے توفیق طلب کرتے ہوئے اپنے پاکیزہ مال میں سے سفر کی تیاری شروع کرے۔گھر والوں کے لئے اتنا چھوڑے کہ اس کی واپسی تک ان کے لئے کافی ہو۔ اگر قرض ہے تو ادا کردے، یا کسی کو ضامن بنا کر انھیں اپنے اس سفر کے لئے راضی کر لے۔البتہ قرض کی ادائیگی کے بغیر اگر حج کر لیتا ہے، تو اس کا حج صحیح ہو جائے گا۔حقوق وغیرہ اس کے ذمہ ہیں، تو ان سے خود کو بری کر لے۔ کسی سے رنجش ہے تو اسے مٹالے ۔یہ سارے امور حج پر مقدم ہیں۔ نیز حج وعمرہ کے ضروری احکام وواجبات اور اس دوران پیش آنے والے مسائل کے بارے میں اچھی طرح سے علم حاصل کر لے۔ سفر کے لئے علماء و صالحین اور اچھے ساتھیوں کو چنے، پھر سفر کے شرعی آداب کی رعایت کرتے ہوئے گھر سے نکلے۔ جب سواری پر بیٹھے تو تین بار اللہ اکبر کہے اوریہ دعاء پڑھے (بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ أکبر اللہ أکبر اللہ أکبر سبحان الذی سخر لنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وإنا إلی ربنا لمنقلبون اللہم إنا نسألک فی سفرنا ھذا البر والتقوی ومن العمل ما ترضی اللہم ہون علینا سفرنا ھذا واطو عنا بعدہ اللہم أنت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الأہل اللہم إنا نعوذ بک من وعثاء السفر وکآبۃ المنظر وسوء المنقلب فی المال والأہل) [ مسلم ] دوران سفر کثرت سے ذکر واذکار اور دعاؤں میں مشغول رہے، کیوں کہ مسافر کی دعاء اور قبولیت کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا۔
مواقیت
میقات دو قسم کے ہیں :
(۱) میقات زمانی : وہ وقت جو حجکے لئے متعین ہے۔ اللہ تعالے کا ارشاد ہے : ( الحج أشہر معلومات ) کہ حج کے مہینے مقرر ہیں [ البقرۃ : ۱۹۷] اور وہ مقررہ وقت شوال ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدئی دس روز ہیں، انھیں دنوں میں ہی حج کے لئے احرام باندھا جا سکتا ہے۔ البتہ عمرہ کے لئے وقت کی کوئی تحدید نہیں، عمرہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہے۔
(۲) میقات مکانی : وہ جگہ جو حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے مقرر ہے۔ اس میقات میں حج و عمرہ دونوں شامل ہیں۔ جو شخص بھی مکہ یا حدود میقات کے اندر داخل ہونا چاہے، اور اس کے دل میں فورا یا کچھ دنوں بعد حج یا عمرہ کا ارادہ ہے، تو اس کے راستے میں پڑنے والے میقات سے احرام باندھنا اس پر ضروری ہے۔ بغیر احرام باندھے حدود میقات مثلا جدہ ، جمجوم ، ام السلم، بحرہ، شرائع بدر اور مستورہ وغیرہ نہیں جا سکتا، کیوں کہ یہ حدود میقات کے اندر ہیں۔ اگر کوئی حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوئے بھی بغیر احرام مکہ یا حدود میقات کے اندر چلا گیا، خواہ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں، تو اس پر میقات سے واپس جاکر احرام باندھنا ضروری ہوگا۔ ورنہ اس مخالفت کے عوض ایک قربانی دینی ہوگی۔
مکہ مکرمہ کی عظمت وحرمت کے سبب چاروں سمت سے آنے والوں کے لئے مواقیت مقرر ہیں، جہاں سے حج وعمرہ کا ارادہ رکھنے والے لوگ احرام باندھ کر ہی اس کے اندر داخل ہوں گے۔ میقات پانچ ہیں : ذو الحلیفہ، قرن منازل، یلملم، جحفہ اور ذات عرق۔ چنانچہ مدینہ منورہ کی طرف سے آنے والا ذو الحلیفہ (ابیار علی جو مسجد نبوی سے تیرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے) سے، شام کے راستے آنے والا جحفہ (ایک ویران بستی ہے، اس سے بالکل قریب رابغ ہے،جو مکہ مکرمہ سے ایک سو چھیاسی کلو میٹر دور ہے،اس راستہ سے گذرنے والے ان دنوں رابغ ہی سے احرام باندھتے ہیں) سے، نجد کی طرف سے آنے والا قرن منازل (جسے ان دنوں سیل کبیر کہا جاتا ہے، اور جو مکہ سے اٹھہتر کلو میٹر دوری پر ہے) سے، یمن کے اطراف سے آنے والا یلملم (جو مکہ کے جنوبی سمت میں ایک سو بیس کلو میٹر پر واقع ہے) سے، اور اہل مشرق وادی عقیق (جو مکہ کے مشرقی جانب ایک سو بیس کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے) سے احرام باندھیں گے۔ اور جو بھی ان اطراف سے آنے والا ہو، وہ اپنے راستے میں پڑنے والے میقات سے احرام باندھے [ البخاری ومسلم ] اہل عراق اور اس سمت سے آنے والوں کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات مقرر کیا تھا [ البخاری ] جو مکہ کے مشرقی جانب سو کلو میٹر پر واقع ہے۔ اور جو مناسب راستہ اور سہولیات نہ ہونے کے سبب ان دنوں استعمال میں نہیں ہے۔
اور جو لوگ حدود میقات کے اندر یامکہ کے اندر رہنے والے ہیں، انھیں واپس میقات جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ حج کے لئے وہ اپنے گھروں سے ہی احرام باندھیں گے [ البخاری ومسلم ] البتہ عمرہ کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو دلیل بناتے ہوئے اکثر علماء حدود حرم کے باہر سے احرام باندھنے کے قائل ہیں، خواہ وہ حج تمتع کا عمرہ ہو یا عام منفرد عمرہ۔ اورعلماء کی ایک جماعت حج کی طرح عمرہ کا احرام بھی اپنی رہائش سے باندھنے کا قائل ہے۔ جب کہ کچھ علماء نے اہل مکہ پر عمرہ کے ثبوت کو ہی ضعیف قرار دیا ہے، کیوں کہ بکثرت طواف اورحرم میں پنجوقتہ باجماعت نمازیں ان کے لئے عمرہ کے بدیل ہیں، بالخصوص جب کہ سلف میں اہل مکہ پر عمرہ کی کوئی مضبوط ومعتبر دلیل نہیں ملتی ہے۔البتہ حج کے ساتھ ساتھ عمرہ کے احکام میں بالعموم اہل مکہ بھی شامل ہیں،لہذا صحیح قول کے مطابق اکثر علماء نے ان کے عمرہ کو صحیح قرار دیا ہے، اور حدیث عائشہ کے سبب عمرہ کا احرام قریبی حدود حرم کے باہر سے باندھنے کو ضروری کہا ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جن کا ارادہ حج یا عمرہ کا نہیں ہے، وہ بغیر احرام باندھے مکہ مکرمہ کے اندر داخل ہو سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیوں کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے سر پر خود پہنا ہوا تھا [ البخاری ومسلم] یعنی بحالت احرام نہیں تھے۔اگر کوئی شخص کسی دوسرے مقصد سے بلا احرام مکہ یا حدود میقات کے اندر چلا گیا،پھر اتفاقا اسے میسر ہو جانے کے سبب اچانک اس کا ارادہ حج یا عمرہ کا ہو گیا، تو علماء اسے حدود میقات کے اندر مقیم لوگوں میں شمار کرتے ہوئے، اس کے اپنی رہائش ہی سے احرام باندھ کر حج وعمرہ کرنے کے قائل ہیں۔اس طرح اس کا حج یا عمرہ صحیح ہو جائے گا، جب کہ اس پر کوئی چیز واجب بھی نہیں ہوگی۔بشرطیکہ پہلے سے اس کے دل میں حج یا عمرہ کا ارادہ قطعا یا تغلیبا نہیں تھا۔
حج یا عمرہ کی نیت
نیت دل کے ارادہ کو کہتے ہیں۔ اس لئے کسی بھی عبادت کی نیت دل سے ہوتی ہے۔ البتہ حج یا عمرہ میں تلبیہ شروع کرتے وقت پہلی بار اگر متمتع ہے تو لبیک اللہم عمرۃ یا لبیک اللہم عمرۃ متمتعا بہا إلی الحج اور اگر قارن ہے تو لبیک اللہم عمرۃ مع الحج مفرد ہے تو لبیک اللہم حجا اور صرف عمرہ ہے تو لبیک عمرۃ جیسے الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر کسی کا بدل ہے تو لبیک عن فلان کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔لیکن اصل نیت دل کا ارادہ ہے۔ کیوں کہ یہ الفاظ اگر زبان سے نہ بھی بولیں، یا بھول جائیں تو دل کے ارادہ کے سبب حج کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔معلوم ہوا کہ جملہ عبادات کی طرح حج وعمرہ میں بھی نیت دل سے ہوگی، البتہ برخلاف دوسری عبادتوں کے حج وعمرہ میں رسول اللہ ﷺ کی متابعت میں مذکورہ الفاظ زبان سے بھی کہنا چاہئے۔اسی طرح اگر تکمیل سے پہلے دشمن یا بیماری وغیرہ یاکسی رکاوٹ کا اندیشہ ہو، تو احرام باندھتے وقت فإن حبسنی حابس فمحلی حیث حبسنی کہنا بھی صحیح ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ضباعہ بنت زبیر کو یہ جملہ کہنے کا حکم دیا تھا [ البخاری ومسلم ] واضح رہے کہ حج ہو یا عمرہ ، نافلہ ہو یا فریضہ، اپنا ہو یا کسی کا بدل ، مناسک میں داخل ہونے کے بعد اسے پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ( وأتموا الحج والعمرۃ للہ ) حج وعمرہ کو (مناسک میں داخل ہو جانے کے بعد لازما ) پورا کرو [ البقرۃ : ۱۹۶]
حج وعمرہ کی نیت میں تبدیلی
احرام باندھنے سے قبل عمرہ یا حج کے تینوں اقسام میں سے کسی ایک کا ارادہ کر لے، پھر احرام میں داخل ہو۔ مناسک میں داخل ہونے سے قبل اپنے ارادے اور حج کی نوعیت بدل سکتا ہے۔ مگر تلبیہ شروع کرنے کے بعد اگر قارن ہے اور قربانی کے جانور ساتھ نہیں ہیں، یا مفرد ہے، تو اپنے اس حج کو حج تمتع یعنی صرف عمرہ سے بدل سکتا ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو اسی کا حکم دیا تھا۔نیز اس میں امت کے لئے آسانی ہے۔ کیوں کہ بموجب حج قران یا افراد آٹھویں ذی الحجہ تک بحالت احرام رہنا شاق ہے۔ البتہ تمتع کو قران سے یا قران کو افراد سے بدلنا صحیح نہیں ہوگا۔سوائے اس عورت کے جسے عمرہ ادا کرنے سے پہلے حیض یا نفاس آجائے،اور نو یں ذی الحجہ تک وہ پاک نہ ہو سکی، تو وہ اپنے حج تمتع کو حج افراد سے بدل کر سیدھا عرفہ پہونچے گی، اور وقوف عرفہ کرے گی۔
احرام اور اس کے لوازمات
میقات پہونچ کر یا اس سے قبل غیر ضروری بالوں کا ازالہ کرنا، ناخن تراشنا، غسل کرنا، بدن پر خوشبو ملنا وغیرہ مستحب ہے۔ اس کے بعد مرد احرام کی نئی ہوں یا پرانی دو سفید بغیر سلی ہوئی چادر پہنے۔ عورت کے لئے شرعی آداب کے تحت عام پہنے ہوئے کپڑوں میں احرام کی نیت کر لینا کافی ہوگا۔ البتہ اگر جاذب نظر زرق برق نہ ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ اگر کوئی عورت مناسک مکمل ہونے تک خون نہ آنے کے لئے دوا یا گولیاں استعمال کرتی ہے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔حیض یا نفاس والی عورت اسی حال میں اور پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی احرام کی نیت کرے گی۔حیض یا نفاس احرام سے پہلے آئے یا بعد میں،حج و عمرہ کا سارا عمل کرے گی، سوائے طواف کے۔کیوں کہ طواف کے لئے نماز کی طرح طہارت شرط ہے۔
احرام میں داخل ہونا
کسی بھی حج یا حج کے عمرہ کا احرام باندھنا شوال کا چاند نظر آنے کے بعد ہی درست ہوگا۔ البتہ عام عمرہ کے لئے کبھی بھی احرام باندھ سکتے ہیں۔ احرام باندھنے کے لئے کوئی خاص نماز وغیرہ کی کوئی صحیح صریح اور قوی روایت نہیں ہے۔ البتہ رسول اللہ ﷺ نے فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد احرام باندھا تھا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح ہوگا، کہ عموما کسی بھی نماز کے بعداحرام باندھنا افضل ہے۔ خواہ تحیۃ الوضوء ہو یا تحیۃ المسجد یا چاشت وغیرہ یا پھر فرائض میں سے کوئی نماز۔ بہرحال کسی بھی نماز کے بعد احرام باندھنا افضل ہے۔
تلبیہ اور اس کے احکام
اگر مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا تونکلتے وقت احرام میں داخل ہونے کی نیت کر لیں۔اور جب سواری حرکت میں آئے، تو تلبیہ شروع کریں۔تلبیہ پڑھنا سنت مؤکدہ ہے، جسے نہ پڑھنے سے بھی حج صحیح ہو جائے گا۔ تلبیہ کے الفاظ یہ ہیں : لبیک اللہم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، إن الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک [ مسلم ] اسے مرد کے لئے بلند آواز سے پڑھنا مستحب ہے۔ جب کہ عورت اسے ہلکی آواز میں پڑھے گی، تاکہ کوئی مرد نہ سن سکے۔احرام میں داخل ہونے سے لے کر کعبہ نظر آنے تک بکثرت تلبیہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ کیوں کہ دیگر اذکار واوراد کے لئے دوسرے مقامات مل جاتے ہیں۔ جب کہ تلبیہ کے لئے صرف حج وعمرہ ہی ایک مقام ہے۔اجتماعی شکل میں تلبیہ پڑھنے سے اجتناب کریں، کیوں کہ یہ سلف کا طریقہ نہیں ہے۔ البتہ ا گر کسی کو تلبیہ کے الفاظ یاد نہیں ہیں، تو اسے تلقین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہاں تک کہ اسے یاد ہو جائے۔
موانع احرام
احرام میں داخل ہونے کے بعد کئی ایسے امور جو احرام سے پہلے جائز اور حلال تھے، احرام کے بعد ممنوع اور حرام ہو جاتے ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں : بال کاٹنا، ناخن تراشنا، شکار کرنا، عقد نکاح وغیرہ کرنا یا کرانا، خوشبو کا استعمال کرنا، جماع یا اس کے مقدمات میں سے کوئی کام کرنا، مرد کے لئے سر ڈھانکنا، عورت کے لئے چہرہ ڈھانکنا، الا یہ کہ اجنبی مردوں کے سامنے سے گذر ہو تو وہ اپنے چہرہ پر کپڑا لٹکا لے گی، گرچہ وہ کپڑا اس کے چہرہ کو چھوئے۔اسی طرح مرد کے لئے سلا ہوا کپڑا استعمال کرنا۔ کمر بند بیلٹ حزام گھڑی بٹوہ چھتری درخت یا چھپر کا سایہ وغیرہ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، نہ ہی سر پہ کوئی سامان اٹھانے میں حرج ہے۔ عورت کے لئے نقاب یا دستانے پہننا وغیرہ محظورات احرام میں سے ہیں۔ اسی طرح مرد ہوں یا عورت منہ پر مارکس لگانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ نہانے سر دھونے احرام کے کپڑے بدلنے یا انھیں صاف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ سر دھوتے یا غسل کرتے وقت غیر اختیاری طور پر ایک دو بال گریں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ جب اس طرح کے حلال امور احرام کے سبب حرام ہوجاتے ہیں، تو اسی سے حرام کاموں کی حرمت میں شدت کا پتہ چلتا ہے۔ مثلا غیبت چغل خوری الزام تراشی گالی گلوج لڑائی جھگڑے بیہودہ اور فحش باتیں، سگریٹ نوشی وغیرہ وغیرہ۔ یوں تو ہر حال میں یہ سب حرام ہیں ، مگر بحالت احرام یہ اور اس طرح کے تمام گناہ کے اقوال وافعال بڑی شدت سے حرام ہو جاتے ہیں۔حج کرتے ہیں گناہ بخشوانے کے لئے، لیکن اس حج کا کیا فائدہ جو بالفرض اگر ادا ہو بھی گیا تو بخشش کی بجائے ڈھیر سارے حرام کاموں کا گناہ لے کر واپس لوٹیں۔ اللہ تعالے ہماری حفاظت فرمائے۔
موانع احرام یا محظورات احرام میں سے کسی چیز کا ارتکاب کر لینے سے حج میں خلل آجاتا ہے۔ اس لئے فوری طور پر اہل علم کی جانب مراجعہ کریں۔ اور ارتکاب کی نوعیت اور کیفیت بتا کر مسئلہ سمجھ لیں، اکثر لغزشوں کا تدارک فدیہ ودم وغیرہ سے ہو جاتا ہے، مگر حج کا احرام پہننے کے بعد اور تحلل اول حاصل ہونے سے قبل بیوی سے جماع کر لینا ایسا عمل ہے جو حج کو باطل کر دیتا ہے۔اور ایسے شخص پر توبہ واستغفار کے سوا کئی چیزیں واجب ہیں، اس کا حج باطل ہو گیا مگر وہ پورے اعمال آخر تک حاجیوں کی طرح انجام دیتا رہے گا۔ اور دوسرے سال اسے وہ حج دوبارہ کرنا ہوگا، خواہ اس کا یہ حج نفلی تھا یا فریضہ۔کفارہ میں ایک اونٹ یا سات بکریاں لازم ہوں گی۔اور اگر تحلل اول کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے جماع کر لے، تو اس کا احرام باطل ہو جائے گا۔ ایسے میں اسے ایک بکری یا چھ مسکین کا کھانا یا تین روزہ رکھنا پڑے گا۔ اور ان تینوں میں اسے اختیار ہوگا۔ نیز حدود حرم کے باہر سے جاکر دوبارہ احرام باندھ کر آئے گا، تاکہ طواف افاضہ بحالت احرام کرے۔ البتہ جہل، لا علمی، یا بھول چوک سے اگر کسی نے سلے ہوئے کپڑے پہن لئے، کچھ بال کتر لئے، ناخن تراش لیا، خوشبو مل لیا، چہرہ یا سر ڈھانک لیا، تو علم ہو جانے کے بعد یا یاد آجانے کے بعد فورا انھیں زائل کرے۔ اور جسے زائل نہ کیا جاسکے اس کے لئے توبہ واستغفار کرے۔ایسے شخص پر دم وغیرہ واجب نہیں ہوگا۔
تکمیل حج وعمرہ سے قبل رکاوٹ
حج ہو یا عمرہ ، نافلہ ہو یا فریضہ، اپنا ہو یا کسی کا بدل ، مناسک میں داخل ہونے کے بعد اسے پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ( وأتموا الحج والعمرۃ للہ ) حج وعمرہ کو (مناسک میں داخل ہو جانے کے بعد لازما ) پورا کرو [ البقرۃ : ۱۹۶ اگر کسی رکاوٹ کے سبب حج یا عمرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کوئی رکاوٹ آجائے، جو حج یا عمرہ مکمل کرنے سے مانع ہو، خواہ حدود حرم کے اندر ہو یا حدود حرم کے باہر، تووہ صبر کرے ، یہاں تک کہ وہ رکاوٹ زائل ہو جائے۔ اگر احرام باندھتے وقت اس نے فإن حبسنی حابس فمحلی حیث حبسنیکی شرط رکھی تھی، یعنی اگر کوئی رکاوٹ آگئی تو جس جگہ مانع درپیش ہو اسی جگہ میں حلال ہو جاؤں گا، تو وہ بال کٹواکر حلال ہو جائے گا، اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔ لیکن اگر احرام باندھتے وقت اس نے یہ شرط نہیں رکھی تھی،تو وہ محصرین میں سے ہوگا۔ ارشاد باری ہے : ( فإن احصرتم فما استیسر من الھدی۔۔۔ ) [البقرہ : ۱۹۶ ] محصر کا حکم یہ ہے کہ وہ وہیں پر قربانی کرے اور مساکین میں تقسیم کر دے۔ اگر اس جگہ لوگ نہ ہوں تو حرم کے اندر بھی لا سکتا ہے۔ پھر بال کٹوا کر حلال ہو جائے۔ اور اگر قربانی کی طاقت نہیں ہے۔ تو پہلے دس روزہ رکھے۔ پھر بال کٹوا کر حلال ہو جائے۔
طواف کعبہ
مسجد حرام میں عام مساجدکی طرح دایاں قدم پہلے داخل کرتے ہوئے یہ دعا پڑھے : بسم اللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ اللہم اغفر لی ذنوبی وافتح لی أبواب رحمتک [مسلم وأحمد ] یا أعوذ باللہ العظیم وبوجہہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم [صحیح الجامع] یعنی اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور درود وسلام ہو اللہ کے رسول پر، اے اللہ مجھے میرے گناہوں سے بخش دے، اور تیری رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے، میں پناہ مانگتا ہوں عظمت والے اللہ کی، اس کے وجہ مبارک کی، اور اس کی قدیم سلطنت کی، شیطان مردودسے ۔ حرم مکہ یا مدینہ میں داخل ہونے کی کوئی مخصوص دعاء وارد نہیں ہے۔ بلکہ یہی دعاء مکہ ومدینہ کے لئے ہے، اورعام مساجد کے لئے بھی ۔
مکہ پہونچنے کے بعد جب کعبہ نظر آجائے، تو معتمر یا متمتع تلبیہ بند کردے۔ اگر کوئی نماز رہ گئی ہے، تو اسے ادا کرے۔ اور چاہے تو کچھ دیر آرام کر لے۔ پھر طواف شروع کرے۔ کعبہ کے سامنے کا ساحہ مطاف ہے، بھیڑ بھاڑ کے سبب مسجد کے اندر سے یا دوسرے وتیسرے منزلہ سے طواف کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ واضح رہے کہ طواف نماز ہی کی طرح ہے،اور نماز ہی کی طرح طواف میں بھی وضوء شرط ہے۔ فرق اتنا ہے کہ دوران طواف بات چیت کرنا جائز ہے۔دوران طواف وضوء ٹوٹ جائے تو تجدید وضوء کے بعد جہاں سے چھوڑا ہے، وہیں سے آگے کی تکمیل کرے گا۔ دوران طواف ضرورت پڑے تو کچھ دیر آرام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک طواف پورے سات چکروں کا ہوتا ہے، اور حجر اسود سے دوبارہ حجر اسود تک آنا ایک چکر ہے۔ اس لئے جب کبھی طواف کرے، سات چکر سے کم نہ کرے۔ طواف کی شروعات حجر اسود سے ہونی چاہئے، اگر بھیڑ بھاڑ کے سبب دوسرے کنارے سے مطاف میں اترتا ہے، تو حجر اسود پہونچنے کے بعد سے طواف شمار کرے۔ حجر اسود کو بوسہ دیناسنت ہے، مگر اس کے لئے طواف کرنے والوں کو اذیت پہونچانا یا دھکم دھکی کرناصحیح نہیں ہے۔ اس طواف میں شروع سے آخر تک اضطباع یعنی دائیں کندھے کو کھلارکھنا چاہئے۔اور یہی وہ جگہ ہے جہاں اضطباع کرنا چاہئے، باقی مکمل حج وعمرہ میں کہیں اور نہیں۔ اضطباع کے دوران اگر نماز پڑھنی ہو تو کندھا ڈھانک کر نماز ادا کریں، کیوں کہ کھلا کندھا نماز نہیں ہوتی ہے۔ فرض نماز کے لئے جماعت کھڑی ہو رہی ہو، تو جہاں تک پہونچا ہو وہیں رک کر نماز ادا کر لے ، پھر اتمام کرے۔ اسی طرح ابتدائی تین چکروں میں رمل یعنی دوڑنے کی طرح تیز چلنابھی مستحب ہے، اور باقی کے چار چکروں میں عادی چال چلے۔
حجر اسود کے سامنے یا اس کے محاذی میں آکر ممکن ہو تو حجر کا تقبیل کرے۔ یا عصا وغیرہ سے مس کر کے اسے چوم لے، ورنہ ہاتھ سے صرف اشارہ کرکے بسم اللہ اللہ أکبر کہہ لینا کافی ہوگا۔ایسی صورت میں ہاتھ کو چومنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ہاتھ نے حجر اسود کو مس کیا ہی نہیں ہے۔ حطیم اصلا کعبہ کا حصہ ہے، جو تعمیر کے وقت باہر رہ گیا ہے، اس لئے حطیم کے اندر سے طواف کرنا آدھا کعبہ کا طواف کرنا ہوگا، اس طرح طواف کرنے والے کا طواف نہیں ہوگا۔ طواف کے کسی بھی چکر کے لئے کوئی مخصوص دعاء نہیں ہے۔ بلکہ جس طرح چاہے، جس زبان میں چاہے،دعاء کر سکتا ہے، مأثور دعائیں ذکر واذکار توبہ واستغفار کے علاوہ قرآن بھی پڑھ سکتا ہے۔ مگر اجتماعی شکل میں دعائیں پڑھنے سے قطعا اجتناب کرے، نیز ان حج گائڈ کتابوں سے دھوکہ نہ کھائے، جو ہر چکر کے لئے مخصوص دعائیں ذکر کرتی ہیں۔ البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ہر چکر میں ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النارکہنا مسنون ہے۔ملتزم یعنی چمٹنے کی جگہ (کعبہ کے دروازے اورحجر اسود کے بیچ کی جگہ) میں صحابہ کرام سے کھڑا ہونا، دعاء کرنا اور چمٹنا وارد ہے۔یہاں پر دعائیں کی جا سکتی ہیں۔ باقی پورے کعبہ کو نہ تو چھونا ضروری ہے۔ اور نہ چمٹنا۔ بالخصوص کعبہ کے کے غلاف کو کاٹنا اور اسے عیب دار بنانا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ رکن یمانی کو اگر آسانی سے استلام کر سکے تو اپنے دائیں ہاتھ سے صرف استلام کر لے، چومنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر دور ہے، تو اشارہ وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر چکروں کی عدد بھول جائے یا شک ہو جائے تو ظن غالب پر عمل کرے،اگر ظن غالب نہیں ہے، تو کم تر عدد کو اصل مان کر عدد پوری کر لے۔ طواف مکمل ہونے کے بعد جگہ ملے تو مقام ابراہیم میں یا مسجد حرام کے کسی بھی حصہ میں دو رکعت ادا کرے، جو طواف کی سنت ہے، پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قل یایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قل ہو اللہ أحد پڑھے۔
مفرد اور قارن کے لئے یہ طواف طواف قدوم ہوا، اور متمتع کے لئے طواف عمرہ۔ یہاں تک کے اعمال کرلینے کے بعد قارن اور مفرد آٹھویں ذی الحجہ تک بحالت احرام رہیں گے۔ اس دوران وہ نفلی طواف وغیرہ کر سکتے ہیں۔ عورت کو اگر اس طواف سے پہلے حیض یا نفاس آگیا، تو وہ پاک ہونے تک طواف نہیں کر سکتی ہے۔ کیوں کہ کعبہ مسجد کے اندر ہے ،اور حائضہ ونفساء کومسجد میں داخل ہونا منع ہے۔نیز طواف کے لئے طہارت اور وضوء شرط ہے۔ اسی دوران اگر نویں ذی الحجہ آگیا، تو وہ بغیر طواف کئے حج افراد کی نیت سے سیدھا عرفہ چلی جائے گی۔ گرچہ احرام باندھتے وقت اس نے دوسرے حج کی نیت کی تھی۔
صفا ومروہ کے درمیان سعی
متمتع اور صرف عمرہ کرنے والا طواف کے بعد صفا ومروہ کی سعی کرے گا۔مفرد اور قارن اگر چاہیں تو طواف قدوم کے بعد سعی کر سکتے ہیں، ایسی صورت میں انھیں طواف زیارہ جسے طواف افاضہ یا طواف حج بھی کہتے ہیں کے بعد دوبارہ سعی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔کیوں کہ یہ وہی سعی ہے، اور اس لئے بھی کہ قارن اور مفرد پر ایک ہی سعی ہے ۔سعیکی شروعات صفا سے ہوگی۔ ایک سعی سات چکروں کی ہوتی ہے، مگر سعی کا ایک چکر صفا سے مروہ ہے، جبکہ مروہ سے دوبارہ صفا آنا دوسرا چکر شمار ہوگا۔ سعی کے لئے طہارت ووضوء ہو تو بہتر ہے، مگر شرط نہیں۔ اسی لئے حائضہ ونفاس والی عورتیں بھی سعی کر سکتی ہیں۔ اس لئے بھی کہ صفا ومروہ مسجد کے اندر شامل نہیں ہیں۔پہلے صفاپر پہونچے،اور أبدأ بما بدأ اللہ بہ کہے۔ پھر اللہ أکبر کہتا ہوا اوپر چڑھے، اور آیت إن الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت أو اعتمر فلا جناح علیہ أن یطوف بہما ومن تطوع خیرا فإن اللہ شاکر علیم پڑھے، اس کے بعد لا إلہ إلاا اللہ وحدہ أنجز وعدہ ونصر عبدہ وھزم الأحزاب وحدہ اور لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شئ قدیر کہے۔ پھرقبلہ رخ ہوکر جتنی چاہے دعائیں کرے۔اس کے بعد مروہ کے لئے روانہ ہو۔ صفا اور مروہ کے بیچ دونوں علامتوں کے درمیان دوڑنے کی طرح سے تیز چلے۔ اور مروہ پہونچنے کے بعدوہی عمل دہرائے جو صفا میں کیا تھا۔اسی طرح ساتوں چکروں میں کرے۔ جس کی انتہا مروہ پر ہوگی۔
حلق یا قصر
اگر یہ سعی مفرد یا قارن کی تھی، تو اب آٹھویں ذی الحجہ تک کے لئے ان کا کام پورا ہوگیا۔ البتہ انھیں حالت احرام ہی میں رہنا ہوگا۔ اور اگر صرف عمرہ یا حج تمتع کی سعی تھی، تو معتمر اور متمتع بال کٹوا کر حلال ہو جائیں گے۔عام حالات میں حلال ہونے کے لئے حلق کرنا افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلق کرانے والوں کے لئے تین بار، جب کہ قصر کرانے والوں کے لئے ایک با رمغفرت کی دعاء کی ہے۔ بہر حال حلق ہو یا قصر مکمل سر کا ہونا چاہئے۔ یہاں وہاں سے دوچار بال کاٹ لینے سے حلال نہیں ہوگا، بلکہ وہ حالت احرام ہی میں رہے گا۔ اگر اس نے لا علمی میں سلے ہوئے کپڑے پہن لئے تو وہ محظورات احرام کا مرتکب مانا جائے گا۔ علم ہونے کے بعد فورا جا کر پورے سر سے بال کٹوانے ہوں گے۔ البتہ عورت کے لئے حلق کرانا جائز نہیں،بلکہ اس کے بالوں کے آخری سرے کو جمع کرکے انگلی کے پور کے برابر یعنی تقریبا ڈیڑھ دو سینٹی میٹر کاٹ لینا کافی ہوگا۔ اور اگر حج کا عمرہ ایام حج سے ایک دو روز قبل کر رہا ہے، اس طرح سے کہ اگر حلق کراتا ہے تو دسویں ذی الحجہ تک دوبارہ بال آنے کا امکان نہ ہو، تو ایسے میں قصر کروانا بہتر ہے۔ تاکہ وہ حج مکمل کرنے کے بعد حلق کرا سکے۔
حرم کے شب وروز
صرف عمرہ اور حج تمتع کرنے والا بال کٹوانے کے بعد حلال ہو جائے گا۔ اور حج افراد اور قران کرنے والے آٹھویں ذی الحجہ تک بحالت احرام رہیں گے۔ اس دوران بیشتر وقت مسجد حرام میں گذارنا بہتر ہے۔ نماز با جماعت کی پابندی، سنن ونوافل کا اہتمام، ذکرو اذکار دعاء واستغفار اور نفلی طواف وغیرہ میں مشغول رہنا چاہئے۔ تجارت ،خرید وفروخت کرنا غلط نہیں ہے۔ مگر اکثر وقت ان میں لگانا صحیح نہیں۔صرف عمرہ کرنے والا اگر حج کے مہینوں میں محض عمرہ کے ارادہ سے عمرہ ادا کرنے کے بعد حدود میقات کے اندر رہ جاتا ہے، پھر آٹھویں ذی الحجہ کو اچانک حج کا ارادہ بن جاتا ہے، اور وہ حج کرلیتا ہے۔ تو ایسے میں وہ متمتع ہو جائے گا۔ اور اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔اور اگر اپنے وطن اہل وعیال کے پاس واپس چلا گیا، اور اتفاقا حج کا پروگرام بن گیا۔ تو ایسے میں اگر وہ صرف حج کرتا ہے، تو وہ حج افراد ہی ہوگا۔ تمتع کے لئے اسے اس سفر میں بھی عمرہ کرنا ہوگا۔ متمتع اگر عمرہ ادا کرنے کے بعد اپنے اہل وعیال کے پاس وطن واپس چلا جاتا ہے، اور حج کے دنوں میں آکر تمتع کا حج ادا کرتا ہے، تو اسے میقات سے ہی احرام باندھنا ضروری ہوگا، کیوں کہ اس کا ادا کیا ہوا تمتع کا عمرہ وطن واپس چلے جانے کی وجہ سے تمتع کا عمرہ نہیں رہ گیا۔لہذا اب اگر صرف حج کرنا چاہتا ہے، تو وہ مفرد ہو جائے گا، اور میقات سے ہی احرام باندھنا ضروری ہوجائے گا۔اگر حج تمتع کرنا چاہتا ہے، تو اس دوسرے سفر میں بھی دوبارہ عمرہ کرنا ہوگا۔اگر حج سے پہلے مدینہ یا کہیں اور حدود میقات سے باہر چلا گیا، تو واپسی میں میقات سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کر سکتا ہے۔
تنعیم سے بکثرت عمرہ کرنا
حج سے پہلے یا حج کے بعد ، عمرہ یا حج سے فارغ ہو کر ایک ہی سفر میں بار بار تنعیم یعنی مسجد عائشہ یا جعرانہ سے احرام باندھ کر بکثرت عمرہ کرناایسا عمل ہے جس کی کوئی دلیل رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام یادیگر سلف صالحین سے نہیں ملتی ہے۔ جب کہ وہ خیر کے کاموں میں سب سے زیادہ حریص تھے۔ بالخصوص رسول اللہ ﷺ نے چھوٹی چھوٹی نیکیوں سے بھی اپنی امت کو آگاہ کر دیا ہے۔ اگر ایک ہی سفر میں بار بار عمرہ کرنا صحیح ہوتا تو اتنے بڑے عمل کو ضرور بیان فرما دیتے۔ اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اور بکثرت طواف نوافل ذکرو تلاوت اور دعاؤں پر اکتفا کرنا چاہئے۔ البتہ اگر کوئی کسی کام سے حدود میقات سے باہر چلا گیا، اور واپس مکہ یا حدود میقات کے اندر آتے ہوئے عمرہ کا ارادہ کر لیتا ہے۔ تو اس کے لئے میقات سے احرام باندھ کر عمرہ پورا کرنا صحیح ہوگا۔کیوں کہ حدود میقات سے باہر نکل جانے کے سبب اس کا حکم عام لوگوں جیسا ہوگیا۔ لہذا عمرہ کا ارادہ ہو تو میقات سے احرام باندھ کر ہی آگے بڑھے گا۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مہینے کے اندر بار بار عمرہ کرنے کومکروہ کہا ہے، اور اس پر سلف کا اتفاق نقل کیا ہے۔ بالخصوص رمضان میں تکرار کو بدعت قرار دیا ہے۔ اس کی صریح دلیل حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو عمرہ کرایا تو خود عمرہ نہیں کیا ، باوجودیکہ طواف وسعی انھیں بھی اپنی بہن کے ساتھ کرنا پڑا۔ اگر ایک ہی سفر اور ایک ہی مہینے میں تکرار عمرہ جائز ہوتا، تو حضرت عبد الرحمن اس موقع کو نہیں گنواتے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ دو عمروں کے درمیان اس قدرفاصلہ کے قائل ہیں کہ سر کے بال پہلے عمرہ میں حلق کرنے کے بعد دوبارہ گھنے اور سیاہ ہو جائیں۔
آٹھویں ذی الحجہ
اسے یوم ترویہ بھی کہا جاتا ہے۔ متمتع اور حدود میقات کے اندر رہنے والا مفرد اپنی رہائش سے آٹھویں ذی الحجہ کو اسی طور طریقہ اور کیفیت سے احرام باندھے گا۔جس طرح میقات سے باندھا جاتا ہے۔حتی کہ اگر کوئی مسجد حرام میں رکا ہوا ہے، تو وہ وہیں سے احرام باندھے گا۔ اگر کوئی منی میں مقیم ہے، تو وہ وہیں احرام باندھ کر تلبیہ شروع کرے گا۔احرام باندھنے یا منی کے لئے نکلتے وقت نہ تو طواف ضروری ہے نہ ہی کوئی نماز وغیرہ۔ مفرد وقارن جو پہلے سے حالت احرام میں ہیں۔ سب کے سب ظہر سے قبل تلبیہ کہتے ہوئے منی پہونچیں گے۔اور منی میں ظہر، عصر ، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں اپنے اپنے وقت میں، مغرب اور فجر کی پوری اور باقی نمازیں قصر کے ساتھ ادا کریں گے۔واضح رہے کہ یہ قصر مسافر ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ حج کے اعمال میں شامل ہے۔لہذا جو بھی حج میں شامل ہوگا، خواہ وہ مکہ منی مزدلفہ یا عرفہ ہی کا رہنے والا کیوں نہ ہو۔ وہ ان ایام میں قصر کرے گا۔
نویں ذی الحجہ
اسے یوم عرفہ اوریوم الحج بھی کہتے ہیں۔وقوف عرفہ ہی حج ہے [ بخاری ] اس دن حج کے ارادہ سے عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لئے روزہ رکھنا منع ہے، اگر کوئی غروب آفتاب سے پہلے پہلے حدود عرفہ میں داخل ہو گیا، تو اس کا حج ہو گیا۔اور جس کا وقوف عرفہ فوت ہو گیا، خواہ اس کا سبب مجبوری ، لا علمی، جہل یا کچھ بھی ہو، تو اس کا حج فوت ہو گیا۔ کیوں کہ وقوف عرفہ حج کا اہم رکن بلکہ یہی حج ہے۔ اس لئے دم یا فدیہ وغیرہ سے اس کا تدارک نہیں ہو سکے گا۔اگر کوئی حج افراد کے ارادہ سے نویں ذی الحجہ کو میقات سے احرام پہن کر سیدھا عرفہ آتا ہے، اور سورج غروب ہونے سے پہلے عرفہ کے حدود میں داخل ہو جاتا ہے، تو اس کا حج ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ میں واقع جبل رحمت کے قریب وقوف کیا ، اور فرمایا : میں نے یہاں پر وقوف کیا، اور پورا عرفہ وقوف کی جگہ ہے [ مسلم ] لہذا کسی خاص جگہ پر وقوف کرنے کے لئے بھیڑ اکٹھی کرنا مناسب نہیں ہے۔ نہ ہی جبل رحمت پر چڑھنا ضروری اور نہ حج کے اعمال میں سے ہے۔حدود عرفہ کی تاکید کرلینی چاہئے، پھر اس کے اندر کسی بھی جگہ وقوف کر نا چاہئے۔ واضح رہے کہ عرفہ میں موجود مسجد نمرہ کا پچھلا بیشتر حصہ حدود عرفات سے باہر ہے۔ اسی طرح وادی عرنہ جو کہ عرفہ سے متصل مگر عرفہ سے خارج ہے۔ اس لئے ان جگہوں پر قیام پذیر حضرات عصر سے پہلے پہلے حدود عرفہ کے اندر چلے جائیں، اور غروب آفتاب تک اندر ہی رکیں۔نماز سے قبل آرام کرنا چاہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ تاکہ نماز کے بعد سے غرب آفتاب تک مکمل مستعدی اور پورے نشاط کے ساتھ ذکر واذکار اور دعاء واستغفار کر سکیں۔ بلکہ اسی مقصد سے ظہر ہی میں عصر کی نماز بھی پڑھ لینی مشروع ہے۔ تاکہ ظہر سے مغرب تک کا طویل وقفہ ذکر واذکار کے لئے خاص ہو جائے۔
مقیم ہو یا مسافر ، خواہ عرفہ ہی کا رہنے والا کیوں نہ ہو، ظہر اور عصر کی نماز قصرا وجمعا جمع تقدیم ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کرے گا۔ یہ قصر اور جمع بھی سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ اعمال حج میں شامل ہے۔ ظہر کے وقت اذان کہہ کر پہلے دو رکعت ظہر ادا کریں گے، اس کے بعد دوسری اقامت کہہ کر عصر کی دو رکعت ادا کریں گے۔ ممکن ہو تو مسجد نمرہ میں پہونچ کر خطبہ وجماعت میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ ورنہ اپنی اپنی رہائش میں باجماعت نماز ادا کر لی جائے۔اور نماز کے بعد سے غروب تک کا پورا وقت ذکر واذکار میں صرف کیا جائے۔واضح رہے کہ کھڑے ہوکر دعاء کرنا بھی وارد ہے [ مسلم ]
اہم ترین اذکار ودعائیں
وقوف عرفہ کے دوران کوئی خاص قسم کی دعائیں ضروری نہیں ہیں، ہر حاجی اپنے اپنے طرز سے بلکہ اپنی زبان میں بھی اپنے مطلب کی دعائیں کر سکتا ہے۔لیکن جو عام اذکار اور دعائیں ہیں، چوں کہ رسول اللہ ﷺ کو جوامع کلم حاصل تھا۔ اور آپ کے جملوں میں فصاحت وبلاغت کا اعلی درجہ موجود ہے، اس لئے آپ ﷺ کی مأثور دعاؤں کا اہتمام کرنا بہر حال افضل ہے۔ چنانچہ ذیل میں آپ ﷺ کی مختلف ثابت شدہ دعائیں ذکر کی جا رہی ہیں، جو آپ ﷺ نے مختلف اوقات اور مختلف حالات میں کی تھی۔ طواف وسعی یا مشاعر کے اندر وباہر کبھی بھی اور کہیں بھی یہ دعائیں کی جاسکتی ہیں۔
* لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئ قدیر [ البخاری ومسلم ] رسول اللہ ﷺ اور آپ سے پہلے نبیوں نے یہ دعاء کی ہے
* حسبی اللہ لا إلہ إلا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم (ابن السنی ورواہ أبو داوود موقوفا)
* سبحان اللہ ، والحمد للہ ، ولا إلہ إلا اللہ ، واللہ أکبر(مسلم) یہ چاروں کلمے اللہ تعالے کو بہت پیارے ہیں
* أللھم أنت ربی لا إلہ إلا أنت خلقتنی وأنا عبدک وأنا علے عھدک ووعدک ما استطعت أعوذ بک من شر ما صنعت أبوء لک بنعمتک علی وأبوء لک بذنبی فاغفر لی فإنہ لا یغفر الذنوب إلا أنت (البخاری)
* سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم [متفق علیہ]
* لا إلہ إلا أنت سبحانک إنی کنت من الظالمین [الأنبیاء : ۸۷]
* لا إلہ إلا اللہ ولا نعبد إلا إیاہ لہ النعمۃ ولہ الفضل ولہ الثناء الحسن لا إلہ إلا اللہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکافرون [مسلم]
* لا حول ولا قوۃ إلا باللہ [أبو داوود]
* ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار [البقرۃ : ۲۰۱]
* اللہم اصلح لی دینی الذی ہو عصمۃ أمری واصلح لی دنیای التی فیہا معاشی واصلح لی آخرتی التی فیہا معادی واجعل الحیاۃ زیادۃ لی فی کل خیر والموت راحۃ لی من کل شر [مسلم]
* أللھم عالم الغیب والشھادۃ فاطر السموات والأرض رب کل شیئ وملیکہ أشھد أن لا إلہ إلا أنت أعوذ بک من شر نفسی وشر الشیطان وشرکہ وأن أقترف علے نفسی سوء أو أجرہ إلے مسلم (أبو داوود والترمذی)
* یا حی یا قیوم بک أستغیث فأصلح لی شأنی کلہ ولا تکلنی إلے نفسی طرفۃ عین (الحاکم)
* أللھم عافنی فی بدنی أللھم عافنی فی سمعی أللھم عافنی فی بصری لا إلہ إلا أنت أللھم إنی أعوذ بک من الکفر والفقر وأعوذ بک من عذاب القبر لا إلہ إلا أنت (أبو داوود والحاکم)
* أللھم إنی أسألک العافیۃ فی الدنیا والآخرۃ أللھم إنی أسألک العفو والعافیۃ فی دینی ودنیای وأھلی ومالی أللھم استر عوراتی وآمن روعاتی أللھم احفظنی من بین یدی ومن خلفی وعن یمینی وعن شمالی ومن فوقی وأعوذ بعظمتک أن أغتال من تحتی (أبو داوود وابن ماجہ)
* أللھم إنی أسألک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا (ابن ماجہ)
* اللہم إنی أعوذ بک من عذاب القبر ومن عذاب جہنم ومن فتنۃ المحیا والممات ومن شر فتنۃ المسیح الدجال ( متفق علیہ )
* الہم إنی أعوذ بک من الہم والحزن ومن العجز والکسل والجبن والبخل وضلع الدین وغلبۃ الرجال [متفق علیہ]
* اللہم إنی أعوذ بک من عذاب القبر وأعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال وأعوذبک من فتنۃ المحیا والممات اللہم إنی أعوذ بک من المأثم والمغرم (متفق علیہ )
* اللہم إنی ظلمت نفسی ظلما کثیرا ولا یغفر الذنوب إلا أنت فاغفر لی مغفرۃ من عندک وارحمنی إنک أنت الغفور الرحیم ( متفق علیہ )
* اللہم اغفر لی ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم بہ منی أنت المقدم وأنت المؤخر لا إلہ إلا أنت ( مسلم )
* اللہم أعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک ( أبو داوود والنسائی وصححہ الألبانیؓ فی صحیح أبی داوود )
* أعوذ بک اللہم من البرص والجنون والجذام ومن سیئ الأسقام [أحمد أبو داوود والنسائی]
* أللہم إنی أسألک العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ [الترغیب والترھیب والأدب المفرد]
* أللہم إنی أسألک العفو والعافیۃ فی دینی ودنیای وأھلی ومالی أللہم استر عوراتی وآمن روعاتی واحفظنی من بین یدی ومن خلفی وعن یمینی وعن شمالی ومن فوقی وأعوذ بعظمتک أن أغتال من تحتی [أبو داوود وابن ماجہ]
* أللہم اغفر لی خطیئتی وجہلی واسرافی فی أمری وما أنت أعلم بہ منی أللہم اغفر لی جدی وھزلی وخطئی وعمدی وکل ذلک عندی أللہم اغفر لی ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم بہ منی أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت علی کل شیء قدیر [متفق علیہ]
* أللہم إنی أسألک الثبات فی الأمر والعزیمۃ علی الرشد وأسألک موجبات رحمتک وعزائم مغفرتک وأسألک شکر نعمتک وحسن عبادتک وأسألک قلبا سلیما ولسانا صادقا وأسألک من خیر ما تعلم وأعوذبک من شر ما تعلم وأستغفرک لما تعلم إنک علام الغیوب [سلسلۃ الصحیحۃ]
* أللہم رب السماوات ورب الأرض ورب العرش العظیم ورب کل شیء فالق الحب والنوی منزل التوراۃ والإنجیل والقرآن أعوذ بک من شر کل شیء أنت آخذ بناصیتہ أنت الأول فلیس قبلک شیء وأنت الآخر فلیس بعدک شیء وأنت الظاہر فلیس فوقک شیء وأنت الباطن فلیس دونک شیء اقض عنی الدین واغننی من الفقر [أبو داوود والترمذی وابن ماجہ]
* اللہم إنی أعوذ بک من العجز والکسل والجبن والبخل والھرم وعذاب القبر وفتنۃ الدجال أللہم آت نفسی تقواہا وزکہا أنت خیر من زکاہا أنت ولیہا ومولاہا أللہم إنی أعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب لہا [مسلم]
* أللہم لک أسلمت وبک آمنت وعلیک توکلت وإلیک أنبت وبک خاصمت أعوذ بعزتک أن تضلنی لا إلہ إلا أنت ، أنت الحی الذی لا یموت والجن والإنس یموتون [متفق علیہ]
* أللہم جنبنی منکرات الأخلاق والأعمال والأھواء والأدواء [أصحاب السنن]
* أللہم ألہمنی رشدی وأعذنی من شر نفسی [الترمذی]
* أللہم اکفنی بحلالک عن حرامک واغننی بفضلک عمن سواک [أحمد والترمذی]
* أللہم إنی أسألک الھدی والتقی والعفاف والغنی [مسلم]
* أللہم إنی أسألک الھدی والسداد [أحمد والنسائی]
* أللہم إنی أسألک من الخیر کلہ عاجلہ وآجلہ ما علمت منہ وما لم أعلم وأعوذ بک من الشر کلہ عاجلہ وآجلہ ما علمت منہ وما لم أعلم وأسألک من خیر ما سألک منہ عبدک ونبیک محمد ﷺ وأعوذ بک من شر ما استعاذک منہ عبدک ونبیک محمد ﷺ أللہم إنی أسألک الجنۃ وما قرب إلیہا من قول أو عمل وأعوذ بک من النار وما قرب إلیہا من قول أو عمل وأسألک أن تجعل کل قضاء قضیتہ لی خیرا [أبو داوود وابن ماجہ]
* لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحیی ویمیت بیدہ الخیر وہو علی کل شیء قدیر [البخاری]
* اللہم إنی أعوذ بک من البخل وأعوذ بک من الجبن وأعوذ بک من أن أرد إلی أرذل العمر وأعوذ بک من فتنۃ الدنیا وعذاب االقبر ( البخاری)
* اللہم إنی أسألک الجنۃ وأعوذ بک من النار ( أبو داوود )
* اللہم إنی أسألک بأنی أشھد أنک أنت اللہ لا إلہ إلا أنت الأحد الصمد الذی لم یلد ولم پولد ولم یکن لہ کفوا أحد ( أبوداوود والترمذی وابن ماجہ وأحمد وصححہ الألبانی فی صحیح الترمذی وصحیح ابن ماجہ )
* سبحان اللہ والحمد للہ ولا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ العلی العظیم [البخاری]
* أللھم صل علے محمد وعلے آل محمد کما صلیت علے إبراھیم وعلے آل إبراھیم إنک حمید مجید اللہم بارک علے محمد وعلے آل محمدکما بارکت علے إبراھیم وعلے آل إبراھیم إنک حمید مجید [متفق علیہ]
مسلمانوں کو چاہئے کہ عرفہ میں انتہائی عاجزی وانکساری ، خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ تعالے کے سامنے گریہ وزاری کریں۔ یہ ایک انتہائی عظیم دن ہے۔ اس دن خصوصیت کے ساتھ اپنا محاسبہ تجدید ایمان توبہ نصوح اور استغفار کرنا چاہئے۔اللہ تعالے اس دن سب سے زیادہ سخی ہوتا ہے۔ بہتوں کو جہنم سے آزاد اور گناہوں سے پاکٌ رار دیتا ہے۔ اسی کو دیکھ کر اس دن شیطان رجیم سب سے زیادہ پریشان حال اور ذلیل ہوتا ہے۔ہاتھ اٹھا کر، بغیر ہاتھ اٹھائے، کھڑا ہوکر، بیٹھ کر، اور جس طرح سے بھی ہو، غروب تک ذکر دعاء میں مشغول رہیں۔
جب سورج غروب ہو جائے، تو عرفہ سے بغیر مغرب کی نماز ادا کئے مزدلفہ کے لئے روانہ ہو جائیں، اگرچہ نماز کے لئے وقت ملے، یا بس وغیرہ کے انتظار میں کچھ لیٹ ہو جائے، مگر مغرب کی نماز راستہ میں بھی نہیں، بلکہ مزدلفہ پہونچنے کے بعد ہی ادا کریں
مبیت مزدلفہ
مزدلفہ پہونچنے کے بعد خواہ جس وقت بھی پہنچیں،سب سے پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو اقامت سے ادا کریں۔ مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دو رکعت۔ حتی کہ اگر مغرب کے وقت ہی مزدلفہ پہونچ جائیں تب بھی اسی کیفیت سے نماز ادا کریں ۔بہت سے لوگ کنکریاں چننے میں مشغول ہو جاتے ہیں، جب کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ رمی کے لئے کنکریاں راستہ سے یا منی ہی سے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ سے منی جاتے ہوئے راستہ سے سات کنکریاں صرف جمرہ کبری کی رمی کے لئے لی تھیں۔اورباقی دنوں کی رمی کے لئے ساری کنکریاں منی ہی سے چنی گئی تھیں۔مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد مزدلفہ میں سوجانا مستحب ہے، بجائے اس کے کہ قیام یا اذکار وغیرہ میں بیدار رہیں، سوجانا بہتر ہے [ مسلم ] تاکہ دوسرے دن جو کہ یوم النحر ہے، اور حاجی کو یکے بعد دیگرے کئی تھکا دینے والے کام کرنے ہیں، اگر وہ اس رات آرام کر لیتا ہے تو یوم النحر کے سارے اعمال نشاط کے ساتھ انجام دے سکتا ہے۔
اس رات کو مزدلفہ میں گذارنا واجبات حج میں شامل ہے۔اگر کسی سے جہل ولا علمی کے سبب مبیت چھوٹ جائے،تو اسے دم دینا پڑے گا۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لئے عورتوں، بچوں ،بوڑھوں، کمزوروں اور معذوروں کوآدھی رات کے بعدمنی کے لئے روانہ ہونے کی اجازت دے دی تھی [ بخاری ومسلم ] اسی طرح جولوگ ان کے ساتھ ہوں گے، جیسے ان کے خیال رکھنے والے یا ڈرائیور وغیرہ، انھیں بھی تہائی رات کے بعد مذکورہ افراد کے ساتھ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اور عام لوگوں کے لئے یہ حکم ہے کہ فجر کی نماز مزدلفہ ہی میں ادا کریں۔ اور نماز کے بعد ذکرو دعاء میں مشغول رہیں، یہاں تک کہ صبح کی سفیدی اچھی طرح پھیل جائے۔پھر سکون ووقار کے ساتھ منی کے لئے روانہ ہوں۔ راستہ میں موقع ملے تو سات کنکریاں جمرہ کبری کی رمی کے لئے چن لیں، ورنہ منی سے لے لینا بھی کافی ہے۔
واضح رہے کہ پورے ایام حج میں دعاؤں کے لئے کئی خاص جگہوں کی بڑی اہمیت آئی ہے۔ طواف کے بعد ملتزم ( کعبہ کے دروازہ اور حجر اسود کے بیچ کی جگہ )کی۔سعی کے درمیان صفا اور مروہ کی۔ وقوف کے دوران عرفہ کی۔ مزدلفہ میں فجر کی نمازکے بعد سے سفیدی پھیل جانے تک کی۔ اور ایام تشریق میں رمی کے وقت پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد کی دعائیں بالخصوص اہمیت رکھتی ہیں۔ اس لئے انھیں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
یوم النحر
اس دن کو یوم حج اکبر کہا گیا ہے۔ کیوں کہ اس دن کئی اہم ترین مناسک حج انجام دئے جاتے ہیں۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن ابو داوود وغیرہ کی کئی صحیح روایتوں سے اس بات کی تائید ہوتی ہے، کہ یوم حج اکبر قربانی کا دن یعنی دسویں ذی الحجہ ہے۔ نیز اللہ تعالے کے کلام : ( ۔۔۔ یوم الحج الأکبر ۔۔۔) [ التوبۃ : ۳ ] میں بھی یوم حج اکبر سے مراد یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ ہی ہے۔ اور عوام میں جو بات مشہور ہے، کہ جس سال کا حج جمعہ کے دن موافق ہو جائے وہ حج اکبری ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
یوم النحریعنی دسویں ذی الحجہ کو متمتع کو پانچ کام کرنے ہوں گے۔ایک جمرہ صرف جمرہ کبری کی رمی، قربانی، حلق یا قصر، طواف افاضہ اور صفا ومروہ کے درمیان سعی۔اسی طرح قارن نے اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی تھی، تو اسے پانچ کام کرنے ہیں۔ جمرہ کبری کی رمی، قربانی، حلق یا قصر، طواف افاضہ اور سعی۔ اور اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی کی تھی تو اب صفا ومروہ کے درمیان سعی کو چھوڑ کرصرف چار کام کرنے ہوں گے۔کیوں کہ قارن پر ایک ہی سعی ہے، جسے چاہے تو طواف قدوم کے ساتھ کر لے، اور چاہے تو طواف افاضہ کے وقت کرے۔ مفرد نے اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی تھی تواسے چار کام کرنے ہیں۔جمرہ کبری کی رمی، حلق یا قصر، طواف افاضہ اور صفا ومروہ کے درمیان سعی۔ اور اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی کر لی تھی تو اب محض تین کام کرنے ہوں گے۔جمرہ کبری کی رمی ، حلق یا قصر اور طواف افاضہ۔ کیوں کہ مفرد پر ایک ہی سعی ہے، جسے چاہے تو طواف قدوم کے ساتھ کرلے، اور چاہے تو طواف افاضہ کے وقت کرے۔ان سارے کاموں میں ترتیب ضروری نہیں ہے۔ مگر جس ترتیب سے رسول اللہ ﷺ نے ادا کیا تھا، اس ترتیب کے ساتھ انجام دینا مستحب ہے۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے جمرہ کبری کی رمی کی، پھر قربانی کی، اس کے بعد حلق کیا، پھر مکہ جا کر طواف افاضہ کیا، اس کے بعد صفا ومروہ کے درمیان سعی کی۔ اور جس نے اس ترتیب کا خیال نہیں رکھا ، اس سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ کرو کوئی حرج نہیں ہے۔
جمرہ کبری کی رمی
واضح رہے کہ دسویں تاریخ کو صرف ایک جمرہ یعنی جمرہ کبری جسے لوگ بڑا شیطان کہتے ہیں، اور جو منی سے مکہ جاتے ہوئے سب سے آخر میں مکہ کی طرف ہے، اسی ایک کی رمی کرنی ہے۔اور باقی ایام تشریق کے تینوں دنوں میں تینوں جمرات کی رمی کی جائے گی۔ دسویں تاریخ کی رمی کا وقت فجر سے شروع ہو کر غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ البتہ فجر سے پہلے ان لوگوں کے لئے رمی کرنے میں کوئی حرج نہیں، جنھیں تہائی رات کے بعد منی آنے کی اجازت ہے۔ وہ جب منی پہونچ جائیں ، اسی وقت رمی کر لیں گے۔ اسی طرح بھیڑ بھاڑ کے سبب اگر کوئی غروب آفتاب تک رمی نہ کر سکا ہو، تو غروب کے بعد بھی رمی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رمی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کھڑا ہو کہ منی دائیں طرف اور کعبہ بائیں طرف نیز جمرہ سامنے ہو۔ بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے دوسری طرف سے رمی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔بہت دور سے رمی کرنا اس حیثیت سے کہ کنکری حوض میں جا رہی ہے یا نہیں کچھ نظر ہی نہ آئے ، مناسب نہیں ہے۔اور نہ ہی اتنا قریب جانا ضروری ہے کہ حوض کے دیوار سے ٹیک لگا لیں، خواہ اس کے لئے کتنی ہی مزاحمت کرنی پڑے۔بلکہ ایسی جگہ سے رمی کریں جہاں سے کنکریاں صحیح جگہ پہونچ سکیں، اور دوسروں کو تکلیف بھی نہ ہو۔ ایک ساتھ دو تین یا ساتوں کنکریاں مار دینے سے وہ ایک کنکری شمار ہوگی، اس لئے الگ الگ ایک ایک کنکری ، اورہر کنکری اللہ اکبر کہتے ہوئے ماریں۔کوئی کنکری اگر کھمبے کو لگنے کے بعد چھٹک کر باہر چلی جائے ، تو اس کے بدلے دوسری کنکری ماریں، کیوں کہ وہ شمار نہیں ہوگی۔ البتہ کھمبے کو لگے یا نہ لگے، حوض کے اندر چلا جانا کافی ہے۔کنکریاں اگر کم ہو جائیں، تو حوض میں سے اٹھانا صحیح نہیں ہے، بلکہ اپنے سامنے گری پڑی کنکریاں اٹھا کر رمی پوری کر لے۔بیماروں کمزوروں حاملہ عورتوں اور بچوں کی طرف سے نیابۃ رمی کرنا جائز ہے، ہر جمرہ میں پہلے اپنی طرف سے رمی کرلے، پھر دوسرے کی نیت سے رمی کرے۔
قربانی
حج کی قربانی متمتع اور قارن پر واجب ہے۔ کم از کم ایک بکرا ، یا گائے یا اونٹ کے ساتویں حصہ میں شریک ہونا کافی ہوگا۔اگر بالکل قربانی کی طاقت نہیں ہے۔ تو ایام حج میں تین روزہ رکھے۔ اور گھر واپس جانے کے بعد سات، کل دس روزے قربانی کی طرف سے کافی ہو جائیں گے۔ ایام حج کے تینوں روزے ایام تشریق میں بھی رکھے جا سکتے ہیں۔اگر کسی کے پاس گنجائش ہے تو اس سے زیادہ جس مقدار میں بھی چاہے، قربانی کر سکتا ہے۔البتہ مفرد پر قربانی واجب نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ قربانی کرنا چاہے، تو کر سکتا ہے۔ اس کا اسے ثواب ملے گا۔قربانی کے لئے وقت موسع ہے۔ علی الاطلاق دسویں تاریخ کو قربانی کرنا افضل ہے۔اگر کوئی چاہے تو گیارھویں، بارھویں یا تیرھویں تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے تک کسی بھی وقت قربانی کر سکتا ہے۔
حلق یا قصر
حاجی متمتع ہو، قارن ہو یا پھر مفرد، ہر حال میں حلق افضل ہے۔ البتہ قصر کروانا بھی جائز ہے۔اور عورت پورے بال کو جمع کر کے آخری سرے سے ڈیڑھ دو سینٹی میٹر کاٹ لے تو کافی ہو جائے گا۔اس کی تھوڑی سی تفصیل عمرہ کے باب میں گذری ہے۔یہاں تک کے کام کر لینے کے بعدتحلل اول حاصل ہو جاتا ہے۔جس میں احرام کی ساری بندشیں ختم ہو جاتی ہیں۔ سوائے بیوی سے جماع کرنے کے۔نہانا دھونا، عادی کپڑے پہننا، خوشبو ملنا وغیرہ سب جائز ہو جاتا ہے۔اور یہاں تک کے سارے کام حائضہ ونفاس والی عورت اسی حال میں کر سکتی ہے۔
طواف افاضہ
طواف افاضہ جسے طواف حج اور طواف زیارہ بھی کہتے ہیں۔ حج کے اہم ترین ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جس کے بغیر حج نا مکمل ہے۔ اور چوں کہ کعبہ مسجد حرام کے اندر ہے، جہاں حیض ونفاس والی عورت داخل نہیں ہو سکتی۔ نیز طواف کعبہ کے لئے طہارت بلکہ وضو شرط ہے، جو حیض ونفاس والی عورت کو حاصل نہیں۔ اس لئے طواف کعبہ کو ایسی عورتیں مؤخر کریں گی، یہاں تک کہ انھیں طہارت حاصل ہو جائے۔خواہ ایام تشریق کے بعد تک کیوں نہ ہو۔اگرپاک ہونے سے پہلے اضطراری طور پر قافلہ کے ساتھ واپسی کا سفر کرنا پڑ جائے۔تو اگر اسے دوبارہ واپس آکر طواف افاضہ کرسکنے کی امید ہے، تو وہ بغیر طواف کے واپس چلی جائے گی۔ ایسی صورت میں دوبارہ آکر طواف افاضہ کر لینے تک وہ اپنے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اسے صرف تحلل اول حاصل ہوا ہے۔ جس کے بعدموانع احرام میں سے جماع کے ما سوا سب کچھ حلال ہو جاتا ہے۔اور میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لئے حلال ہونے کے لئے تحلل ثانی کا حاصل ہونا ضروری ہے، جو کہ طواف افاضہ کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اور اس نے ابھی طواف افاضہ نہیں کیا ہے۔ اس لئے وہ اپنے شوہر سے دور رہے گی۔جب وہ طواف افاضہ کے لئے دوبارہ آئے گی، تواگر وہ چاہے تو اس سفر میں عمرہ بھی کر سکتی ہے۔پہلے عمرہ کے اعمال انجام دے گی، پھر باقی ماندہ طواف افاضہ ادا کرے گی۔ اور اگر دوبارہ واپس آکر طواف افاضہ کر سکنے کی اسے امید نہ ہو، تو وہ خود کو کپڑوں سے اچھی طرح محفوظ کر لے گی، یا خطرہ نہ ہو تو خون روکنے والے انجکشن لگوا لے گی، اور اسی حال میں طواف کر لے گی۔ علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ یا نہیں تو خود کو محصرین میں سے شمار کر کے فدیہ دے کر احرام سے آزاد ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں اس کا حج فوت ہو گیا۔ اگر سفر کے وقت پاک ہو گئی، اور اس نے ایک ساتھ طواف وداع اور طواف افاضہ دونوں کی نیت سے طواف کر لیا، تو دونوں کی طرف سے کا فی ہو جائے گا۔ اور اگر طواف افاضہ کے بعد حیض یا نفاس شروع ہوتا ہے، تو طواف وداع ایسی عورت سے ساقط ہو جائے گا۔ یہیں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے، کہ رمی کی طرح صرف طواف کسی کی طرف سے بدل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مگر جن علماء نے قرآن پڑھ کر میت کو ایصال کرنا جائز کہا ہے، ان کے نزدیک طواف کرکے بھی ایصال کیا جا سکتا ہے۔ طواف افاضہ کو عام لوگوں کے لئے بھی مؤخر کرنا جائز ہے۔ مگر بلاسبب ایام تشریق سے زیادہ تاخیر نہیں کرنا چاہئے۔اگر کوئی وطن واپسی کے لئے سفر کے وقت طواف افاضہ کر رہا ہے، تو یہی طواف اس کے طواف وداع کی طرف سے بھی کافی ہو جائے گا۔کیوں کہ ایسی صورت میں بھی آخری کام بیت اللہ کا طواف ہی ہوا۔
صفا ومروہ کے درمیان سعی
قارن اور مفرد نے اگر طواف قدوم کے بعد سعی کر لی تھی، تو اب انھیں سعی کی ضرورت نہیں، کیوں کہ مفرد اور قارن پر ایک ہی سعی واجب ہے۔ جسے چاہے تو طواف قدوم کے ساتھ کرے، اور چاہے تو طواف افاضہ تک مؤخر کرے۔اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی تھی، تو اب طواف افاضہ کے ساتھ سعی بھی کرے۔ البتہ متمتع پر دو سعی ہیں، ایک عمرہ کے لئے، دوسری حج کے لئے۔ لہذا اب اسے طواف افاضہ کے ساتھ سعی بھی کرنی ہو گی۔یہ سعی اگر کسی نے طواف افاضہ سے پہلے کرلی، تو کافی ہو چائے گا۔ لیکن یہ خلاف سنت ہے۔ افضل یہ ہے کہ طواف کے بعد سعی کی جائے۔کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔
ایام تشریق
گیارھویں ذی الحجہ
ایام تشریق ذی الحجہ کے گیارہ بارہ اور تیرہ تاریخ کے تین دنوں کو کہتے ہیں۔ گیارھویں اور بارھویں تاریخ کی راتوں کو منی میں گذارنا واجب ہے۔ اس لئے طواف افاضہ سے فارغ ہونے کے بعد منی واپس آجائے۔ اور رات منی کے حدود کے اندر گذارے۔ جگہ نہ مل سکنے کے سبب اگر قیام حدود منی سے باہر ہو، تو رات کا اتنا حصہ منی کے اندر آکر گذارے ، جسے مبیت کہا جا سکے۔دسویں تاریخ سے لے کر منی سے نکل جانے تک ہر نماز قصرا بلا جمع یعنی اپنے اپنے وقت میں چار رکعت والی نمازیں قصر کے ساتھ ادا کریں گے۔ اور یہ بھی سفر کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ اعمال حج میں سے ہے۔ جسے ہر حاجی خواہ مقیم ہو یا مسافر انجام دینا ہے۔ ایام تشریق کی رمی کا افضل وقت زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے۔ مگر بہت سے علماء نے زوال سے قبل بھی رمی کرنے کی اجازت دی ہے۔اسی طرح اگر کوئی رمی نہ کر سکا ہو تو غروب کے بعد بھی رمی کر سکتا ہے۔گیارھویں تاریخ کو زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرے۔ پہلے جمرہ صغری جو منی سے مکہ جاتے ہوئے سب سے پہلے ملتا ہے، اور منی کی طرف واقع ہے، الگ الگ سات کنکریوں سے سات بار میں ہر کنکری اللہ اکبر کہتے ہوئے مارے۔اور تھوڑا سا ہٹ کر قبلہ رخ جمرہ کو دائیں طرف کر کے دیر تک دعائیں کرے۔اس کے بعد جمرہ وسطی جو درمیان میں واقع ہے، الگ الگ سات کنکریوں سے ہر کنکری اللہ اکبر کہتے ہوئے رمی کرے۔پھر تھوڑا ہٹ کر قبلہ رو جمرہ کو بائیں طرف رکھ کر دیر تک دعاء کرے۔اس کے بعد جمرہ کبری جو اخیر میں مکہ کی طرف واقع ہے، اسی طرح سات کنکریوں سے اس کی رمی کرے۔ اور بغیر دعاء کئے واپس آجائے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے تیسرے جمرہ کی رمی کے بعد دعاء نہیں کی تھی۔کمزوروں بیماروں ضعیفوں حاملہ عورتوں اور بچوں کی طرف سے نیابۃ رمی کی جا سکتی ہے، ہر جمرہ میں پہلے اپنی طرف سے رمی کرے، پھر موکل کی طرف سے ۔
بارھویں ذی الحجہ
دن میں اگر منی سے باہر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں، مگر رات کومنی واپس آنا ضروری ہے۔ بارھویں تاریخ کی رات منی میں گذاریں۔ اور زوال کے بعد حسب سابق تینوں جمرات کی رمی کریں۔اگر کسی سے لا علمی اور جہل کے سبب کسی تاریخ کی مبیت یا رمی چھوٹ جائے، تو اسے دم دینا پڑے گا۔بہت سے علماء اگر اس کی طاقت نہ ہو تو حسب مقدور صدقہ وخیرات کرنے کے قائل ہیں۔ ان کے مطابق فوت شدہ مبیت کے
لئے حسب قدرت صدقہ وخیرات کرے، اور رمی کوقضاء کرتے ہوئے از سر نو ترتیب سے پورا کرے۔ پہلے دن کی رمی پوری کرے، پھر واپس آئے، اور دوسرے دن کی رمی کرے، جب وہ پوری ہو جائے، تو تیسرے دن کی رمی کے لئے پھر جمرہ صغری آکر تیسری بار تیسرے دن کی رمی شروع کرے۔اس طرح رمی مکمل کر لے۔ اور اس تقصیر پر توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ حسب استطاعت صدقہ وخیرات کرے۔ممکن ہے ان کا یہ قول اضطراری حالت یا عاجز کے لئے ہے۔
تیرھویں ذی الحجہ
تیرھویں تاریخ اختیاری ہے۔ اگر کوئی چاہے تو تعجل کرتے ہوئے تیرھویں تاریخ کی مبیت اور رمی دونوں چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن تاخیر کرتے ہوئے تیرھویں تاریخ کی مبیت کرنا اور اس دن کی رمی کرنے کے بعد منی سے نکلنا بہتر ہے۔اگر کوئی تعجل کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے بارھویں تاریخ کی رمی کرکے منی کے حدود سے نکل جانا ضروری ہے۔ اگر منی کے حدود کے اندر رہتے ہوئے ہی سورج غروب ہو گیا ، تو تیرھویں تاریخ کی مبیت اور رمی دونوں اس پر واجب ہو جائیں گے۔ اب وہ دوسرے دن زوال کے بعد تینوں جمرات کی حسب سابق رمی کر کے ہی منی سے نکل سکتا ہے۔اس لئے جو تعجل کرنا چاہے، اسے غروب آفتاب سے قبل ہی حدود منی سے باہر نکل جانا چاہئے۔ تعجل کرنے والا منی سے نکل جانے کے بعداگر رات کے وقت کسی ضرورت سے، یا کوئی بھولے ہوئے سامان کو لینے کے لئے واپس منی آتا ہے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔اپنی ضرورت پوری کر کے واپس جا سکتا ہے۔
ھدایا وتحفے تحائف
منی سے نکلنے کے بعد حج کے سارے اعمال پورے ہو گئے،سوائے طواف وداع کے۔ اب مکہ میں جب تک چاہیں قیام کر سکتے ہیں۔ اس دوران زیادہ سے زیادہ طواف تلاوت اور ذکر ودعاء کا اہتمام کرنا چاہئے۔ خرید وفروخت کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ خاص طور سے اہل وعیال اور دوست واحباب کے لئے تحفے تحائف لینے میں کوئی حرج نہیں۔لیکن ان سب چیزوں میں بہت زیادہ فضول خرچی نہیں کرنی چاہئے۔ مکہ اور مدینہ سے لے جائے جانے والے ھدایا میں زمزم کے پانی اور کھجور سے بڑھ کر اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔ خاص کر زمزم ساتھ لے جانے کا رواج سلف میں بھی حجاج کے اندر ہوا کرتا تھا۔
طواف وداع
طواف وداع حج میں فرض ہے۔ جب کہ عمرہ میں سنت ہے۔ حاجی کا سب سے آخری کام جو مکہ میں ہونا چاہئے ، وہ طواف وداع ہے۔ طواف وداع کے بعد فورا نکل جانا چاہئے۔ اگر بہت زیادہ تاخیر ہو گئی، تو دوبارہ طواف وداع واجب ہو جائے گا۔ کچھ لوگ طواف کے بعد الٹے پاؤں نکلتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ کعبہ کو پیچھے کر لینے سے کعبہ کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ اسی طرح کعبہ کو دیکھ دیکھ کر دیر تک آنسو بہاتے ہیں، جیسے کعبہ کو وہ رخصت کر رہے ہوں۔ یہ سارے اعمال سلف صالحین کے کسی بھی زمانے میں نہیں تھا۔ اس لئے ایسے بے تکے اعمال سے پرہیز کریں۔ کعبہ کا احترام دل اور اعمال سے ہوتا ہے، نہ کہ الٹے پاؤں چلنے سے۔اگر یہ عمل اچھا ہوتا، تو رسول اللہ ﷺ ضرور اپنی امت کو بتاتے۔
طواف وداع کے بعد اپنے ساتھی کا کچھ دیر کے لئے انتظار کر سکتے ہیں۔ گاڑی یا ڈرائیور کا بھی انتظار کیا جا سکتا ہے۔ اس دوران اگر حرم میں جماعت کھڑی ہو رہی ہو، تو باجماعت نماز ادا کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سامان وغیرہ کی خریداری بھی کی جا سکتی ہے۔لیکن اگر بہت زیادہ لیٹ ہو جائے ، اس طرح سے کہ عرف عام میں اسے تاخیر کہا جائے، تو دوبارہ طواف وداع کر لینا چاہئے۔
اگر کوئی وطن واپسی کے سفر کے وقت بالکل آخری وقت میں طواف افاضہ کر رہا ہے، تو ساتھ میں طواف وداع کی نیت کرے یا نہ کرے۔ یہی طواف وداع کی طرف سے بھی کافی ہو جائے گا۔اسی طرح حیض یا نفاس والی عورت اگر آخری وقت میں پاک ہوئی، اور طواف افاضہ کر رہی ہے، تو طواف افاضہ اور طواف وداع دونوں کی طرف سے کافی ہو جائے گا، کیوں کہ ایسی صورت میں حاجی کا آخری کام بہر حال کعبہ کا طواف ہی ہوا۔اور اگر طواف افاضہ کے بعد کسی عورت کو حیض یا نفاس شروع ہوا، اور سفر کے وقت تک وہ پاک نہیں ہوئی،تو اس سے طواف وداع ساقط ہو جائے گا۔ بغیر طواف وداع کئے وہ سفر کر سکتی ہے۔
اللہ تعالے اپنے فضل وکرم سے ہمارے اور آپ کے حج وعمرہ کو قبول فرمائے، اور ہم سے جو بھی تقصیر سرزد ہوئی ہے، اسے معاف فرمائے۔ وصلی اللہ وسلم وبارک وأنعم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین ومن تبعہم بإحسان إلی یوم الدین وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
مراجع ومصادر
قرآن کریم اور اس کے تفاسیر، کتب حدیثیہ اور ان کے شروحات ، فتاوی لجنہ دائمہ ، فتاوی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ
فتاوی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ، فتاوی ارکان اسلام لابن عثیمین رحمہ اللہ ، تحفۃ الإخوان لابن باز رحمہ اللہ
التحقیق والایضاح للحج والعمرہ ابن باز رحمہ اللہ ، فتاوی مہمہ عن الحج والعمرہ ابن باز رحمہ اللہ وغیرہم
جمع و ترتیب :
أَبُوْ مُحَمَّدْ عَبْدُ اللّہ الکَافِیْ المُحَمَّدِیْ
خریج کلیۃ الحدیث الشریف والدراسات الإسلامیۃ
بالجامعۃ الإسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ
خریج کلیۃ الحدیث الشریف والدراسات الإسلامیۃ
بالجامعۃ الإسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ
داعیۃ ومترجم
فی قسم الجالیات بالمکتب التعاونی للدعوۃ والإرشاد
وتوعیۃ الجالیات بمحافظۃ تیماء
۱۵ ؍ جمادی الآخرہ ۱۴۲۷ ھ ۱۲ ؍ جون ۲۰۰۶ م بروز منگل
وتوعیۃ الجالیات بمحافظۃ تیماء
۱۵ ؍ جمادی الآخرہ ۱۴۲۷ ھ ۱۲ ؍ جون ۲۰۰۶ م بروز منگل
بوقت قبل مغرب